حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمۃ اللہ کا فتویٰ
ایک مرتبہ آپ مصر تشریف لے گئے تو وہاں جامعۃ الازھر کے علماء کرام سے ملاقات کے دوران فتنۂ شیعیت کے متعلق گفتگو ہوئی ، اس میں آپ نے ایسے کلمات ارشاد فرمائے جو کہ ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ نے ارشاد فرمایا کہ جامعة الازھر میں شیعوں کے بارے میں مسئلہ چل رہا ہے، ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جو مسلم شیعہ کے درمیان منفرت ہی ہے، اس کو ختم کیا جائے اور جامعۃ الازھر میں شیعوں کو بھی داخلے کا حق دیا جائے ، یہ مسئلہ وہاں چل رہا ہے۔
وہاں کے شیوخ میں شیخ عبدالواحد والی ہیں ایک جگہ ان سے ملاقات ہوئی تو اس مسئلہ پر کچھ گفتگو ہوئی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایک شیعہ تو وہ ہیں جو بالکل اصول اسلامیہ سے منحرف اور بالکل مختلف ہیں جیسے کوئی تحریفِ قرآن کا قائل ہے یا بعض حلول خداوندی کے قائل ہیں ان سے تو بحث نہیں وہ تو اسلام سے خارج ہیں لیکن جو لوگ مخفض سیدنا علیؓ کی تفضیل کے قائل ہیں ان سے اگر منافرت باقی نہ رہے تو کیا حرج ہے؟ خواہ مخواہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت الگ ہے۔
تو میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر فقط اتنا ہی مسئلہ ہو اہم تو یہ بھی ہے۔ اس واسطے کہ اب فضیلت شیخینؓ پر اور ان کی خلافت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے، اجماع کا فرق اور اس کا توڑ ڈالنا یہ بھی تو کوئی معمولی چیز نہیں لیکن اگر اس کو برداشت کر بھی لیا جائے کہ ایک چیز پر اجماع ہو چکا ہے مگر اس کی جو جانب مخالف ہے وہ کوئی حرام یا ممنوع نہیں لیکن اگر فقط ایک مسئلہ ہو تو کچھ صبر کر لیا جائے لیکن ان کے جو سارے فرقوں کا قدر مشترک ہے وہ امامت ہے اور وہ امامت۔ کو بنوت سے افضل جانتے ہیں پھر امام کے معصوم بھی سمجھتے ہیں، کہتے ہیں امام کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتا تو یہ مسئلہ بھی سامنے آئے گا۔ کیا آپ اس کو برداشت کر لیں گے؟
ظاہر بات ہے کہ جب بنیاد کے اند رہی اختلاف ہو گیا کہ ہم تمام مسلمان اس کے قائل ہیں کہ نبوت سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں، امامت توابع نبوت میں سے ہے، جب نبوت ختم ہوگئی تو نبوت کی خلافت باقی رہے گی۔ وہ خلافت خواہ امامت کی صورت میں ظاہر ہو خواہ علم کی صورت میں خواہ کسی بھی کمال کی صورت میں ہے۔ بہر حال وہ فروعاتِ نبوت میں سے ہے۔
یہ امت کا ایک اجتماعی مسئلہ ہے، اس کے اندر اگر ایک فرقہ یہ دعویٰ کرے کہ نبوت افضل نہیں بلکہ امامت افضل ہے تو پہلے تو یہ اجماع کا فرق ہوا پھر یہ ان کے ہاں امام کیلئے عصمت لازم ہے جیسا کہ نبی کے لئے عصمت لازم ہے تو نبوت کے محاذ کے متوازی ایک دوسرا مقام لا کے کھڑا کر دیا تو ہم اس کو شرك في النبوة سے تعبیر کریں گے۔ جیسا کہ شرك في الولوهيت ممنوع ہے اسی طرح شرک فی النبوة بھی ممنوع ہے۔ ختم نبو ت کے بعد جو بھی عصمت کا دعویٰ ہو گا تو اس کی زد براہ راست ختم نبوت پر پڑے گی۔ ادھر ایک دعویٰ خارق اجماع اور دوسرا اسلام کا اجماعی مسئلہ ختمِ نبوت کا ہے یہ اس کے بھی منافی ہے، تو کیا آپ اسے برداشت کریں گے؟
پھر میں نے یہ عرض کیا کہ دوسری بات یہ ہے کہ ان ساری چیزوں کو چھوڑ دیجئے یہ دیکھئے کہ ہر فرقے کا ایک مزاج ہوتا ہے، اس فرقے کا مزاج ہی تخریبی میں ہے، اور تاریخ اس پر شہادت دے گی کہ مسلمانوں کو جتنے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اس میں سیاست کی یا خلافت کی، جہاں جہاں تباہی ہوئی ہے نیچے سے یہی فرقہ نکلتا ہے۔ تو تاریخ کی روشنی میں یہ ایک تخریبی فرقہ ہے۔ جب اس کا مزاج یہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ آج وہ آپ کی چاپلوسی کر کے آپ میں شامل ہو جائے لیکن کل کو نوک پنجے نکال کر آپ کو پٹخ دے آپ کے اوپر غالب آ جائے جیسا کہ تاریخ اس پر شاہد ہے، پھر آپ کیا کریں گے؟ آپ نے محض ایک عقیدہ سامنے رکھ لیا یعنی تفضیلِ سیدنا علیؓ : کہ جی ! یہ کوئی زیادہ اہم نہیں۔ اگر صرف اس ایک مسئلے تک بات ہوتی تو مضائقہ نہیں تھا مگر مسائل دوسرے بھی ہیں۔ پھر طبقوں اور طبقات کا مزاج ہوتا ہے اس سے قطع نظر کر لینا تو ٹھیک نہیں ہے، اس طرح کی باتیں ان سے ہوتی رہیں۔ آخر میں انہوں نے یہ کہا کہ میں بھی ان چیزوں کا قائل ہوں، میں تو صرف نمائندگی کر رہا تھا کہ ہمارے ہاں یہ خیالات ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ اب بات آپ پر واضح ہوگئی ہے تو اب آپ یہ نمائندگی کریں گے کہ یہ خیالات غلط ہے اور یہ نہیں ہونے چائیں ۔
(دفاع صحابہ اور علماء دیوبند: صفحہ، 148)