Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ کا فتویٰ


سوال:  شیعانِ علی مسلمان ہیں یا کافر؟

جواب:  اگر کوئی شخص سیدنا علیؓ کو باقی تمام صحابہؓ سے افضل سمجھتا ہے تو صرف اتنے اعتقاد سے وہ کافر نہیں ہوتا ، مگر آج کل کے شیعہ کا صرف یہ اعتقاد نہیں ان کے معتقدات کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ، چنانچہ تحریفِ قرآن کا مسئلہ ان کے ہاں مسلمات اور متواترات میں سے ہے۔ 

(احسن الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 75)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

بعض مسلمانوں کو ان زنادقہ کے بارے میں دو غلط فہمیاں ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں بعض فرقے یا بعض افراد ایسے ہیں جو تحریفِ قرآن اور انبیاء کرام علیہم السلام پر تفصیل ائمہ کے قائل نہیں ۔ دوسری یہ کہ ان کے عوام کو تحریفِ قرآن اور تفصیل آئمہ جیسے عقائد کا علم نہیں ۔ اور جو حضرات ان دو غلط فہمیوں میں مبتلاء ہیں انہوں نے شیعہ کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا اور ان کی عوام کا جائزہ نہیں لیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ان میں مرد، عورت، چھوٹا، بڑا، بچہ بوڑھا کوئی فردایسا نہیں جو تحریفِ قرآن کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، ہر خاص و عام اور جاہل سے جاہل کے دل میں بھی یہ عقیدہ خوب راسخ ہے۔ ان میں عقیدہ تحریفِ قرآن با لکل اسی طرح متواترات ، مسلمات اور بدیہیات و ضروریاتِ دین میں سے ہے جیسے مسلمانوں میں صداقتِ قرآن اور نماز روزہ۔

اگر یہ ناممکن مفروضہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ان کے عوام کو ایسے عقائد کا علم نہیں تو بھی کفر و زندقہ کے حکم سے شیعہ کے کسی فرد کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ کسی مذہب میں دخول کا حکم لگانے کے لئے اس مذہب کے عقائد کی تفصیل کا علم ضروری نہیں ۔ بلکہ اس مذہب کی طرف صرف انتساب ( نسبت ) کافی ہے۔ مثلا کسی کو مسلمان قرار دینے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اسے عقائد اسلام کی تفصیل معلوم ہو، بلکہ اتنا کافی ہے کہ وہ خود کو مذہب اسلام کی طرف منسوب کرتا ہو، یعنی ایمانِ مجمل کے حصول سے اسلام میں داخل ہو جائے گا،بشر طیکہ اسلام کے خلاف کوئی عقید ہ نہ رکھتا ہوں ۔

لہٰذا ہر وہ شخص جو خود کو مذہب شیعہ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ شیعہ ہی ہے اس لئے وہ بھی کافر اور زندیق ہے، اگر چہ اپنے مذہب کے عقائد کی تفصیل سے بے خبر ہو۔ حقیقت وہی ہے کہ ان مردودوں کے عقائد مذکورہ ہر شیعہ بچے کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ جیسے مسلمان اپنے بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی اللّہ تعالیٰ جلِ شانہ حضور اکرمﷺ اور قرآن جیسے موٹے موٹے عقائد اسلام کی تعلیم دیتے ہیں اسی طرح ان مردودوں کا کوئی بھی بچہ جیسے ہی ہوش سنبھالتا ہے ۔ تحریفِ قرآن جیسے عقائد اس کے دل و دماغ کی گہرایوں میں اتار کر اسے مکمل طور پر شیعہ اور کافر و زندیق بنا دیتے ہیں ۔

اس انتہائی مہکار، عیار تخریب کار، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہت خطرناک سازشوں میں ہر وقت مصروف کار، دغا بازی و فریب دہی کے فن میں ہر زمانہ میں پوری دنیا میں اول نمبر مشہور اور ماہر یہودنژ اور قوم کو جس کے مذہب کی بنیاد ہی مکرو فریب اور اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بغض و عناد تخریب کاری پر ہے، اور ایسی شاطر و روبہ صفت نسل کو اپنے بچوں کی ذہنی تربیت اور ان کے دل و دماغ میں اپنے مذہب کی بنیاد اتارنے کی کوشش و محنت میں مسلمانوں سے کم سمجھنا صرف سادہ لوحی ہی نہیں بلکہ پرلے درجے کی حماقت اور انتہائی فریب خوردگی ہے۔

ان مردودوں کے دین و ایمان کی بنیادی تقیہ مہم ہے۔ اس لئے اگر کوئی شیعہ قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو یقیناً وہ تقیہ کر رہا ہے۔ اس کی مثالیں خود انہی کی کتابوں میں موجود ہیں۔جب ان پر ان کی کتابیں پیش کی جاتی ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ: ہم میں سے ہر شخص مجتہد ہے، اس لئے جس مصنف نے تحریفِ قرآن کا قول کیا ہے ، اس کا اپنا اجتہاد ہے جو ہم پر حجت نہیں ۔

ایسی صورت میں ان کے تقیہ کا پول کھولنے کے دو طریقے ہیں:

  1.  عقیدہ تحریفِ قرآن اصول کافی میں بھی موجود ہے۔ اور اس کتاب کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ یہ لوگ امام مہدی کی تصدیق اس کتاب کے سرورق کی پیشانی پر چھاپتے ہیں ، اور ان کے عقیدہ کے مطابق ان کا ہر امام غلطی سے معصوم اور عالم الغیب ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی افضل ہے ۔ اس لئے ان کا اصول کافی کے فیصلہ سے انکار کرنا اپنے امام کی عصمت اور اس کے علمِ غیب سے انکار کرنا ہے۔
  2. ان کے جن مصنفین نے تحریفِ قرآن کا قول کیا ہے یہ ان سب کو کافر کہیں اور ایسی تمام کتابیں جلا ڈالیں پھر اپنے اس قول و فعل کو اخباروں میں اشتہار دیں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شیعہ بھی اس پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ جو شخص بھی چاہے اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے۔میں نے کئی شہروں میں خاص طور پر ان مردودوں کے حملوں میں ان کے امام باڑوں کے سامنے جا کر بڑے بڑے جلسوں میں بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ:

جو شیعہ اصولِ کافی کو مجمع میں پھاڑ کر جائے اور اس کے مصنف کو کافر کیے، پھر اپنے اس قول وفعل کا اخباروں میں اشتہار دے تو میں اس ایک لاکھ رو پے دوں گا۔ لاکھ روپے جمع کرنے کیلئے مجھے چندہ نہیں کرنا پڑے گا۔ اپنے پاس سے دوں گا میرے اللہ تعالیٰ جلِ شانہ نے مجھے بہت دیا ہے، جتنے شیعہ بھی اعلان کرتے جائیں گے ہر ایک کو ایک لاکھ روپے دیتا جاؤں گا۔ مگر آج تک کوئی ایک شیعہ بھی ایسا پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی قیامت تک ہو سکتا ہے۔

کیا اس کے بعد بھی کسی کو اس حقیقت میں کسی قسم کے تأمل کی کوئی گنجائش نظر آ سکتی ہے کہ بالا استثناء شیعہ کا ہر فرد کافر اور زندیق ہے۔

 (احسن الفتاویٰ: جلد، 10 صفحہ، 36)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سزائے قتل ، ہر مرتد کیلئے نہیں بلکہ خاص اس مرتد کیلئے ہے جو محارب و باغی ہو، جیسے حضرت عبداللہ ابنِ مسعودؓ کی روایت میں تصریح گزر چکی ہے۔

سزائے قتل ہر مرتد کیلئے نہیں بلکہ خاص اُس مرتد کیلئے ہے جو محارب و باغی ہو، جیسے حضرت عبد اللہ ابنِ مسعودؓ کی روایت ( حضرت حارثہ بن مضربؒ نے کوفہ کے گورنر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اہلِ عرب سے کوئی کینہ نہیں، لہٰذا سچ کہتا ہوں کہ میں قبیلہ بنی حنیفہ کی مسجد کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ بنو حنیفہ مسیلمہ کذاب پر ایمان لانے کی وجہ سے مرتد ہو گئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ نے ان لوگوں کو بلوا بھیجا، جب وہ لائے گئے تو آپ نے ابن النواحہ کے سوا باقی مرتدین کو مہلت دی اور ابن النواحہ سے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کا تیرے متعلق یہ ارشاد سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا۔ لیکن آج تو قاصد نہیں ہے۔ پھر آپ نے حضرت قرظة بن کعبؓ کو حکم فرمایا کہ سرِ عام اس کی گردن اڑا کر اسے لوگوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنائیں ۔ انہوں نے بھرے بازار میں اس کی گردن اڑادی۔ پھر آپ نے فرمایا: جو شخص ابن النواحہ مرتد کو دیکھنا چاہے تو وہ بازار میں مقتول پڑا ہے ) میں تصریح گزر چکی ہے: التارك لدينه المفارق للجماعة

اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں المفارق اللجماعة کی قيد احترازی نہیں واقعی ہے۔ ہر مرقد باغی و مفسد اور جماعت مسلمین سے الگ تھلگ ہے۔ ورنہ دوسری احادیث جو پیچھے مفصل نقل کی گئی ہیں ان میں کہیں اس کا اشارہ تک نہیں کہ مستوجب قتل ہونے کے لئے جرمِ ارتداد کے ساتھ بغاوت بھی شرط ہے۔ اگر مرتدین کی یہ اچچ تسلیم کرلی جائے تو اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ ارتداد کوئی جرم نہیں ۔ اس لئے کہ ہر باغی خواہ وہ مسلمان ہی ہو حالتِ بغاوت میں واجب القتل ہوتا ہے۔ جب جرم بغاوت کی مستقل سزا قتل ہے ۔ جرمِ ارتداد کو اس کے ساتھ بھی کرنے کی کیا ضرورت ؟

حقیقت یہ ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے، خواہ وہ باغی ہو خواہ مطیع، جیسا کہ باغی کی سزا قتل ہے خواہ و مرتد ہو خواہ مسلمان ۔ خلفاء راشدینؓ اور پوری امت کا متوارث عمل اس پر شاہد ہے۔ کتب حدیث میں بھی بغاة و محاربین اور مرتدین کی سزاؤں کیلئے الگ الگ ابواب قائم کئے گئے ہیں ۔ دونوں کو خلط ملط کرنا پوری امت کی تجہیل اور احادیث کے ایک پورے باب کا انکار ہے۔ 

(احسن الفتاوىٰ: جلد، 6 صفحہ، 383)