موجودہ زمانہ کے تمام شیعہ کافر ہے
حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانیؒ کا فتویٰ
سوال: کیا اس وقت شیعوں میں ان فرقوں کا وجود ہے جو کفریۂ عقائد نہ رکھتے ہوں۔
جواب: شیعوں کے بہت سے فرقے تھے، ان کی تعدا د تقریباً 70 تک ذکر کی گئی ہے، ان میں سے اب بھی بہت سے ہیں، سیدنا علیؓ کے بارے میں افراط وغلو، حضرات خلفائے ثلاثہؓ سے بغض و عداوت اور لعن طعن ان سب فرقوں میں قدرِ مشترک ہے۔ ان میں بعض وہ بھی تھے جن کا عقیدہ تھا کہ دراصل اللہ تعالیٰ جلِ شانہ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کو نبی بنانا چاہا تھا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی لے کر ان کے پاس بھیجنا تھا لیکن وہ غلطی سے حضرت محمدﷺ بن عبد اللّہ کے پاس پہنچ گئے ۔ ہمارے بعض فقہاء اور اصحاب فتاویٰ نے شیعوں کے ان عقیدؤں کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایسے عقیدے رکھنے والے فرقے ہمارے علم میں اب دنیا میں کہیں نہیں ہیں ۔ اب شیعہ عام طور سے اثناء عشریہ ہی کو کہا جاتا ہے۔ جن کا دوسرا معروف نام (امامیہ ) بھی ہے ۔ ہمارے استفتاء اور فتاویٰ کا تعلق خاص اس فرقہ سے ہے۔ شیعوں کے دوسرے فرقے اب اپنے مستقل ناموں سے معروف ہو گئے ہیں۔ مثلاً اسماعیلیہ نصیریہ، زیدیہ، وغیرہ۔ (خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 34)
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ کا جو امام ہوتا ہے اصل میں وہ کافر ہوتا ہے اور باقی جو عوام ہیں ان کو کیا پتہ ، وہ تو جاہل ہیں، لہذا ان پر کفر کا فتویٰ لگا دینا درست نہیں ؟
جواب نمبر 1: اگر آپ کے اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے ، پھر تو یہودیت ، نصرانیت، عیسائیت، قادیانیت ، ہندؤ اور سکھ وغیرہ جتنے بھی غیر مسلم ہیں تو ان کو کافر نہیں کہنا چاہئے ، کیونکہ صرف ان کے پوپ، پادری ، گُرو کافر ہیں ۔ اسی طرح ہم اور آپ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ بھی باطل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ہمارے تو صرف علماء کرام ہی مسلمان ہوئے ، نہ کہ عوام ۔ اور دین کو جاننے والے حضرات علماء ہی ہیں، پھر ہم اہلِ سنت والجماعت کے جاہل لوگوں کو کیوں مسلمان کہتے ہیں ؟
جواب نمبر 2: جو شخص کسی مذہبی فرقہ سے وابستہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس کے عقائد وہی ہیں جو اس مذہب کی مستند کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اپنے مذہب سے جہالت و ناواقفیت یا اپنی ذاتی رائے کی بناء پر اس کے وہ عقائد نہ ہوں ۔ اس اصول کی بناء پر کہ جس طرح جو شخص اپنے کو مسلمان کہتا ہے اس کے متعلق یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان رکھتا ہے، اگرچہ ہماری بدبختی سے مسلمانوں میں بہت سے جاہل اور دین سے ناواقف ایسے لوگوں کا ہونا معلوم ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور ایمانیات سے بے خبر ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے پڑھے لکھے گمراہ بھی ہیں جو مغربی تعلیم اور فلسفہ کے اثر سے آخرت، جنت، دوزخ اور ملائکہ جیسی ایمانی حقیقتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب تک کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق کے ساتھ ایسی بات معلوم نہ ہو اس کو مسلمان ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔ اس مسلمہ اصول کی بناء پر یہی سمجھا جاتا ہے اور سمجھا جائے گا کہ جو شخص شیعہ اثناء عشری فرقہ سے وابستہ ہے اس کے عقائد وہی ہیں جو اس فرقہ کی مستند کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں اور انہی عقائد کی بنا پر اس کے بارے میں وہ شرعی فیصلہ کیا جائے گا جو راقم سطور کے استفتاء کے جواب میں حضرات علماء کرام و اصحاب فتویٰ نے کیا ہے۔ اگر بالفرض ان میں سے کسی فرد کے عقیدے وہ نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کے حق میں وہ فیصلہ نہیں ہوگا لیکن اثناء عشری مذہب میں تقیہ چونکہ نہ صرف جائز بلکہ واجب اور آئمہ معصومین کی سنت و عبادت ہے۔ اس لئے اگر کوئی اثناء عشری شیعہ ان عقائد سے انکار کرے جو موجبِ کفر ہے تو اس انکار کے بارے میں شک و شبہ رہے گا ۔ نکاح اور ذبیحہ جیسے معاملات میں احتیاط کے پہلو پر عمل کرتے ہوئے پرہیز کیا جائے گا۔ ہاں اگر ایسے کسی شخص کے بارے میں کسی ذریعہ سے یقین ہو جائے کہ یہ اثناء عشریہ کے موجبِ کفر عقائد سے بَری ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بارے میں وہ فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ جلِ شانہ جو علیم و خبیر ہے اس کے ساتھ اپنے علمِ محیط کے مطابق معاملہ فرمائے گا۔ (خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 32)
سوال:
بعض لوگ کہتے ہے کہ یہ کفریہ عقائد اگلے زمانہ کے شیعوں کے تھے؟
جواب: حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانیؒ فرماتے ہیں کہ اس پورے مطالعہ کا حاصل پیش کرنے کیلئے ایک مستقل کتاب در کار ہوگی ۔ تا ہم اس میں سے اس وقت صرف وہ پیش کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جو اسی صدی کے مستند شیعہ علماء و مجتہدین کا لکھا ہوا ہے تاکہ اس خیال کی تردید ہو جائے جو بعض لوگوں کی طرف سے نہایت غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر بلکہ سر گوشیوں کے سے انداز میں پھیلایا جا رہا ہے یعنی یہ کہ:
یہ عقائد اگلے زمانہ کے شیعوں کے تھے ہمارے زمانہ کے اثناء عشریوں کے یہ عقیدے نہیں ہیں۔
یعنی یہ بات بالکل فضول اور لایعنی ہے۔
(خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 37)