Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مدرسه جامع العلوم کانپور کا فتویٰ


محدث جلیل، فقیہ العصر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ کا جواب بالکل درست ہے، اثناء عشری شیعوں کے کفر و ارتداد میں وجوہ مذکورہ کی بناء پر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔ جناب مولانا عبدالماجد دریابادی نے شیعوں کے کفر کے سلسلہ میں کچھ شبہات و اشکالات کئے تھے جن کے مدلّل و مفصل جوابات حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے تحریر فرمائے ہیں ۔ اس کے چھٹے تمتہ سوال کے تمتہ' جواب میں تحریر فرمایا ہے لیکن اگر وہ خود ہی اپنے کو کافر بنائیں (بالمنون ) تو کیا ہم اُس وقت بھی ان کو کافر نہ بتائیں (بالتاء)۔ دنیا میں اپنے آپ کو آج تک کسی نے کافر نہیں کہا بلکہ کوئی عیسائی کہتا ہے، کوئی یہودی ، مگر چونکہ ان فرقوں کے عقائد کفریہ دلائل سے ثابت ہیں، اس لئے ان کو کافر ہی کہا جاۓ گا تو اس حکم کا عقائد کفر پر پڑا۔ تو ایک شخص اپنے کو فرقۂ شیعہ سے کہتا ہے اور کوئی عقیدۂ کفریہ اس مذہب کے اجزاء یا لوازم سے ہے تو اپنے کو اس فرقہ میں بتلانا بدلالت التزامی اس عقیدہ کو اپنا عقیدہ بتلانا ہے، پھر عدم تکفیر کی کیا وجہ؟ اور اگر یہاں یہ عقیدہ مختلف فیہ بھی ہوتا تب بھی اور جو اختلاف ہے وہ غیر معتد به ہے جس کو خود ان کے جمہور رد کر رہے ہیں ۔ اس حالت میں اصل تو کفر ہو گا، البتہ کوئی صراحتاً کہے کہ میرا یہ عقیدہ نہیں، یا کوئی اپنا لقب جدا رکھ لے، مثلاً : جو علماء ان کے تحریف کے بانی ہیں ، ان کی طرف اپنے کو منسوب کریں مثلاً اپنے آپ کو صدوقی یا قمی یا مرتضوی یا طبرسی کہا کریں مطلق شیعہ نہ کہیں تو خاص اُس شخص کو یا اس فرقہ کو عموم سے مستثنیٰ کر دیں گے لیکن ایسے استثناؤں سے ثانوی حکم نہیں بدلتا ہے ، حرمتِ نکاح حرمتِ ذبیحہ احکام ثانوی ہیں، یہ اس پر بھی جاری ہوں گے، جب تک وہ فرقہ متمیز و مشہور نہ ہو جائے ۔ الغرض شیعوں کا کفر بر بنائے تحریفِ قرآن محل تردد نہیں ۔ 

(جواهر الفتاوى: جلد، 1 صفحہ، 332)