حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ صاحب کا فتویٰ
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ کا جو امام ہوتا ہے اصل میں وہ کافر ہوتا ہے اور باقی جو عوام ہیں ان کو کیا پتہ ، وہ تو جاہل ہیں، لہٰذا ان پر کفر کا فتوی لگا دینا درست نہیں ؟
جواب نمبر 1: اگر آپ کے اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے ، پھر تو یہودیت ، نصرانیت، عیسائیت، قادیانیت ، ہندؤ اور سکھ وغیرہ جتنے بھی غیر مسلم ہیں تو ان کو کافر نہیں کہنا چاہئے ، کیونکہ صرف ان کے پوپ، پادری ، گُرو کافر ہیں ۔ اسی طرح ہم اور آپ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ بھی باطل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ہمارے تو صرف علماء کرام ہی مسلمان ہوئے ، نہ کہ عوام ۔ اور دین کو جاننے والے حضرات علماء کرام ہی ہیں ، پھر ہم اہلِ سنت والجماعت کے جاہل لوگوں کو کیوں مسلمان کہتے ہیں ؟
جواب نمبر 2: جو شخص کسی مذہبی فرقہ سے وابستہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس کے عقائد وہی ہیں جو اس مذہب کی مستند کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اپنے مذہب سے جہالت و ناواقفیت یا اپنی ذاتی رائے کی بنا پر اس کے وہ عقائد نہ ہوں ۔ اس اصول کی بنا پر کہ جس طرح جو شخص اپنے کو مسلمان کہتا ہے اس کے متعلق یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان رکھتا ہے، اگرچہ ہماری بدبختی سے مسلمانوں میں بہت سے جاہل اور دین سے نا واقف ایسے لوگوں کا ہونا معلوم ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور ایمانیات سے بے خبر ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے پڑھے لکھے گمراہ بھی ہیں جو مغربی تعلیم اور فلسفہ کے اثر سے آخرت، جنت، دوزخ اور ملائکہ جیسی ایمانی حقیقتوں پر یقین نہیں رکھتے، لیکن جب تک کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق کے ساتھ ایسی بات معلوم نہ ہو اس کو مسلمان ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔ اس مسلمہ اصول کی بناء پر یہی سمجھا جاتا ہے اور سمجھا جائے گا کہ جو شخص شیعہ اثناء عشری فرقہ سے وابستہ ہے اس کے عقائد وہی ہیں جو اس فرقہ کی مستند کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں اور حضرات علماء کرام و اصحاب فتویٰ نے کیا ہے۔ اگر بالفرض ان میں سے کسی فرد کے عقیدے وہ نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے حق میں وہ فیصلہ نہیں ہوگا لیکن اثناء عشری مذہب میں تقیہ چونکہ نہ صرف جائز بلکہ واجب اور آئمہ معصومین کی سنت و عبادت ہے۔ اس لئے اگر کوئی اثناء عشری شیعہ .. ان عقائد سے انکار کرے جو موجبِ کفر ہے تو اس انکار کے بارے میں شک و شبہ رہے گا ۔ نکاح اور ذبیحہ جیسے معاملات میں احتیاط کے پہلو پر عمل کرتے ہوئے پرہیز کیا جائے گا۔ ہاں اگر ایسے کسی شخص کے بارے میں کسی ذریعہ سے یقین ہو جائے کہ یہ اثناء عشریہ کے موجبِ کفریۂ عقائد سے بَری ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بارے میں وہ فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ جلِ شانہ جو علیم و خبیر ہے اس کے ساتھ اپنے علمِ محیط کے مطابق معاملہ فرمائے گا۔
(خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 32)
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی مہم کا نشانہ صرف خمینی اور اس کے پیروں کا روں کو بنانا چاہئے ، نفس شیعیت اور اثناء عشری مذہب کو نشانہ بنانا غیر ضروری بھی ہے اور خلاف مصلحت بھی ؟
جواب: ہم صاف لفظوں میں عرض کرتے ہیں کہ یہ خیال ہماری رائے میں شیعیت کی حقیقت اس کی تاریخ اور خمینی و شیعیت کے باہمی تعلق کی اصل نوعیت کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ خمینی دراصل قدیم شیعه باطنی تحریک کا ایک لیڈ رہے، اسی ضمن میں ہم یہ بھی عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ شیعہ کے جو علماء خمینی کی شخصیت اور ان کے کچھ افکار و خیالات سے اختلاف رکھتے ہیں ہم نہ ان کے ہم نوا ہے اور نہ ان کے خیالات کو اپنی بات کی تائید میں پیش کرنا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ کفر و اسلام کا مسئلہ شخصیتوں سے متعلق نہیں ہوا کرتا بلکہ عقائد سے متعلق ہوا کرتا ہے۔ دنیا میں جس شخص کے عقائد وہ ہو جو اثناء عشری مذہب کے بنیادی عقائد ہیں اسلام سے لا تعلقی کے معاملہ میں اس میں اور خمینی میں فرق کرنا علمی اعتبار سے غلط اور عملی اعتبار سے مضر ہے۔
(خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 14 )