شیعہ فرقہ سے ہونا ہی کفر کو ثابت کرتا ہے حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ کا فتویٰ
حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کا فتویٰ:
سوال: اگر کوئی شخص ایسے فرقے کی طرف اپنے کو منسوب کرے، جس کے کچھ عقائد اسلامیہ ہوں کچھ کفریہ ہوں ، اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: قواعد سمعیہ و مقلیہ اس پر متفق ہیں کہ مجموعہ ایمان و کفر کا، کفر ہی ہے ۔
وقد صرح به في قوله تعالى: ويقولون نؤمن ببعض وتكفر ببعض و يريدون ايتخذوا بين ذلك سبيلا ، اولئک هم الكفرون حقا
ورنہ دنیا میں ایسا کوئی کافر نہ ہو گا جس کا ہر عقیدہ کفریہ ہی ہو ۔ کثرت سے کافر ، صانع کے قائل ہیں ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر ننانوے وجہ کفر کی ہوں اور ایک ایمان کی تو ایمان کا حکم کیا ہو گا، اس سے مرا دو وجوہات ہیں جن میں دونوں احتمال ہوں، جیسے ایک کلام کے کئی معنی ہو سکتے ہوں۔
(امداد الفتاویٰ: جلد، 4 صفحہ، 587 )
تتمة السوال:
حضرت حاجی صاحب کا جو مکتوب سرسید کے نام تھا مجھے اس قدر پسند آیا تھا کہ میں نے اہتمام کے ساتھ اسے سچ میں شائع کیا تھا۔ پس میری فہمِ ناقص میں اس کو معیار بنا لینا چاہئے ۔ اور اسی کے مطابق معاملہ تمام گمراہ فرقوں سے رکھنا چاہئے۔ یعنی نہ مداہنت نہ اتنی مخالفت کہ ان میں اور عیسائیوں،آریوں وغیرہ میں کوئی فرق ہی نہ رکھا جائے؟
تتمة الجواب :
لیکن اگر وہ خود ہی اپنے کو کافر بنا ئیں تو کیا ہم اُس وقت بھی ان کو کافر نہ بتائیں ۔ دنیا میں اپنے کو آج تک کسی نے کافر نہیں کہا، بلکہ کوئی عیسائی کہتا ہے کوئی یہودی، مگر چونکہ ان فرقوں کے عقائد کفریہ دلائل سے ثابت ہیں ، اس لئے ان کو کافر ہی کہا جائے گا۔ تو مداراس کا حکم کفریہ عقائد پر ٹھہرا۔ تو اگر ایک شخص اپنے آپ کو فرقۂ شیعہ سے کہتا ہے اور کوئی عقیدہ کفریہ اس مذہب کے اجزاء یا لوازم سے ہے تو اپنے کو اس فرقہ میں بتلانا بدلالت التزامی اس عقیدہ کو اپنا عقیدہ بتلانا ہے۔ پھر عدم تکفیر کی کیا وجہ ؟ اور اگر ان کے یہاں یہ عقیدہ مختلف فیه بھی ہوتا تب بھی کسی کی تکفیر میں تردّد ہوتا لیکن یہ بھی نہیں اور جو اختلاف ہے وہ غیر معتددبه ہے جن کو خود ان کے جمہور رد کر رہے ہیں۔ اس حالت میں اصل تو کفر ہو گا البتہ کوئی صراحتاً کہے کہ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے یا کوئی فرقہ اپنا لقب جدا رکھ لے۔ مثلاً جو علماء اُن کی تحریف کے نافی ہیں اُن کی طرف اپنے کو منسوب کیا کریں ۔ مثلا اپنے کو سدوقی یا قمی یا مرتضوی یا طبرسی کہا کریں مطلق شیعہ نہ کہیں تو خاص اُس شخص کو یا اس فرقہ کو اس عموم سے مستثنیٰ کہہ دیں گے لیکن ایسے استثناؤں سے قانونی حکم نہیں بدلتا ہے۔
حرمتِ نکاح و حرمتِ ذبیحہ احکام قانونی ہیں ، یہ اس پر بھی جاری ہوں گے۔
جب تک وہ فرقہ متمنیز و مشہور نہ ہو جاۓ۔ خصوصاً جبکہ تقیہ کا بھی شبہ ہے تو خواہ سوء ظن نہ کریں مگر احتیاطاً عمل تو سوء ظن ہی جیسا ہوگا ۔ البتہ اللہ تعالیٰ جلِ شانہ کے ساتھ اس کا معاملہ وہ اس کے عقیدہ کے موافق ہوگا۔ اگر کوئی ہندؤ توحید کا بھی قائل ہو اور رسالت کا بھی لیکن اپنے کو ہندو کہتا ہو، گویا کچھ تاویل ہی کرتا ہو۔ تو اس کے ساتھ آخر کیا معاملہ ہو گا؟
یہی حالت یہاں کی ہے۔ ضلع فتح پور میں ہندوؤں کی ایک جماعت ہے جو قرآن وحدیث پڑھتے ہیں، اور نماز روزہ رکھتے ہیں مگر اپنے کو ہندؤ کہتے ہیں ۔ لباس اور نام سب ہندوؤں جیسا رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے کو ہندؤ کہیں اور اپنا مشرب ظاہر نہ کریں تو کیا سامع کے ذمہ تفصیل واجب ہو گی؟ کہ اگر ایسے عقیدہ کا ہے تو کافر اور اگر ایسے عقیدہ کا ہے تو مسلمان۔
(امداد الفتاوىٰ: جلد، 4 صفحہ، 585)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ تکفیر کے دو درجے ہیں، ایک فیما بينه وبين الله یعنی جو معاملات بندوں اور حق تعالیٰ جلِ شانہ کے درمیان ہے، ان کا مدار تو کفرِ باطنی پر ہے جس کا باطعیین کسی پر حکم نہیں لگایا جاسکتا ، اور دوسرا درجہ احکام ظاہری کے اعتبار سے ہے، اس کا مدار قوانینِ خاصہ پر ہے، جو علماء کے کلام میں مدّون ہے۔اس درجہ میں احتمالات: غیر ناشی عن دليل ملحوظ نہیں ، ورنہ کسی کافر پر جہاد تک بھی جائز نہ رہے، کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دل میں مؤمن ہو، اور اظہارِ کفر میں اس کے پاس کوئی واقعی عذر ہو، اور ظاہر ہے کہ اس میں کسی قدر غلط لازم آتا ہے۔ ایمان جس طرح ایک اجمالی ہے ایک تفصیلی، دونوں کا مدار احکام ہیں ، اسی طرح کفر بھی ایک اجمالی ہے ایک تفصیلی اور دونوں کا مدار احکام ہیں ۔
پس جیسا کسی فرقۂ اسلامیہ کی طرف اپنے آپ کو نسبت کر دینا موجبِ حکم بالایمان ہے، گو ایک ایک عقیدۂ اسلامیہ کی تفصیل نہ کرے ، اسی طرح کسی فرقۂ کفریہ کی طرف اپنے کو نسبت کر دینا موجبِ حکم بالکفر ہے، گو ایک ایک عقیدۂ کفریہ کی تفصیل نہ کرے۔
(امداد الفتاوىٰ : جلد، 4 صفحہ، 587)