Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل: محبت علی رضی اللہ عنہ اور گناہ کی چھوٹ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: محبت علی رضی اللہ عنہ اور گناہ کی چھوٹ

شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ان دلائل میں سے ایک دلیل صاحب الفردوس کی حضرت معاذؓ سے ذکر کردہ یہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: حضرت علیؓ کی محبت ایک ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے برائی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور حضرت علیؓ سے بغض رکھنا ایک ایسا جرم ہے جس کی موجودگی میں نیکی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘

ہم کہتے ہیں :’’ مسند الفردوس‘‘ نامی اس کتاب میں موضوعات کی بھر مار ہے۔اس کا مصنف شیرویہ بن شہریار دیلمی محدث ہے۔اگرچہ وہ بھی دین کے سچے طلبگاروں میں سے تھا ۔لیکن اس نے جو احادیث جمع کیں ‘ان کی اسانید حذف کردیں ؛ اور صحیح وضعیف اور موضوع روایت کو پرکھے بغیرجمع کردیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں بہت زیادہ موضوع روایات پائی جاتی ہیں ۔[وہو شِیرویہِ بن شہردار بنِ شِیرویہِ بنِ فناخسرو، ولِد سن:445، ھ وتوفِی سن:509،مؤرِخ ومحدِث، لہ تارِیخ ہمذان وفِردوس الأخبارِ وہو ِکتاب کبِیر فِی الحدِیثِ اختصرہ ابنہ شہردار، واختصر المختصر ابن حجر العسقلانِی، انظر ترجم شِیرویہِ فِی شذراتِ الذہبِ:4؍23؛ الأعلام:3؍268۔]

یہ حدیث بھی ان روایات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں کوئی بھی مؤمن گواہی دے سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ ایسی بات ہر گز ارشاد نہیں فرما سکتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت حضرت علیؓ کی محبت کی نسبت بہت بڑی اور عظیم الشان چیز ہے۔مگر اس کے باوجود یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ مومن کو برائیوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ [لم أجِد ہذا الحدِیث الموضوع ولِکنِی وجدت حدِیثا موضوعاً مقارِباً ذکرہ ابن الجوزِیِ فِی الموضوعاتِ:1؍37 وہو: حب علِیِ بنِ أبِی طالِب یأکل السیِئاتِ کما تأکل النار الحطب))۔وذکرہ أیضا السیوطِی فِی اللآليِئِ المصنوعۃِ:1؍355۔ اس کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے شیعہ نے کئی روایات گھڑ رکھی ہیں ؛جو کہ دوسری جگہ تفصیل سے بیان ہوچکی ہیں ۔ یہاں پر بطور اشارہ کچھ روایات بیان کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : ’’ علیؓ کی محبت ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی برائی نقصان دہ نہیں ہے اور بغض علی ایسی برائی ہے جس کی موجود گی میں کوئی نیکی بھی فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل القمی: 96( فی فضائل الامام علی علیہ السلام )] نیز آپ کی طرف یہ بھی منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ( حالانکہ آپ اس الزام سے بری ہیں ):’’۔ اگر تمام مخلوق علی بن أبی طالب کی محبت پر جمع  ہو جاتی تو ﷲ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل( خبر المقدسی ) ] آپ پر افتراء پردازی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے صرف وہی شخص جنت میں داخل ہوگا جو علی سے محبت کرتا ہوگا۔ اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے جس نے بھی علی سے نفرت کی وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘[ علل الشرائع؍ ابوجعفر محمد بن علی بن بابویہ القمی: 1؍ 162، حدیث نمبر:۔ ۱( باب العلۃ التي من أجلھا صار علی بن أبی طالب قسیم اﷲ بین الجنۃ والنار)۔] ہماری اہلِ تشیع سے اتنی گزارش ہے کہ عقل مندی کا ثبوت دیں اور غور کریں کیا حضرت علیؓ کا مقام و مرتبہ رسول اللہﷺ کے مقام و مرتبہ سے بھی بڑا ہے؛ کہ آپ کی محبت پر وہ انعام نہیں جو حضرت علیؓ  کی محبت پر ہے ؟یا پھر یہ بہتان تراشی ہے۔]

نبی کریمﷺ نے عبد اللہ بن الحمار نامی ایک شخص پر شراب کی حد قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایک شخص نے اسے گالی دی۔ تو آپ نے فرمایا:

’’اسے چھوڑیے کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر، (حدیث: 6780)]

ہر مؤمن مرد اور عورت لازمی طور پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتے ہیں ‘ مگر اس کے باوجود برائیاں انہیں نقصان دیتی ہیں ۔تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ‘اور شریعت محمدی میں یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو یہ شرک اس کے لیے نقصان دہ ہوگا ؛ اور اللہ تعالیٰ مشرک کی مغفرت نہیں کرے گا ‘بھلے وہ حضرت علیؓ سے محبت ہی کیوں نہ کرتا ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد ابو طالب اپنے بیٹے حضرت علیؓ سے محبت رکھتے تھے، اس کے باوصف انھیں شرک سے نقصان پہنچا اور وہ جہنمی قرار پائے۔ اسی طرح غالی شیعہ بھی حب علیؓ کے دعویٰ دار ہیں ، وہ بھی اصل میں جہنمی ہیں ۔

صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’ اگر فاطمہؓ بھی چوری کا ارتکاب کرتیں تو میں ان کا ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الحدود ، باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع (حدیث: 6787، 6788)، صحیح مسلم، کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف وغیرہ، (حدیث:1688)۔]

یہ بات دین میں یقینی طور پر سبھی جانتے ہیں کہ اگر کوئی مرد چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔اگرچہ وہ حضرت علیؓ سے محبت بھی کیوں نہ کرتا ہو۔ ایسے ہی اگر زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی ۔اگرچہ وہ حضرت علیؓ  سے محبت بھی کیوں نہ کرتا ہو۔ ایسے ہی اگر کوئی کسی کو قتل کردے تو اسے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔اگرچہ وہ حضرت علیؓ سے محبت بھی کیوں نہ کرتا ہو۔ ایسے ہی اگر کوئی انسان نماز پڑھنا اور زکوٰۃ اداکرنا چھوڑ دے تو اسے اس کا نقصان ہوگا بھلے وہ رسول اللہﷺ سے ہی محبت دعویدار کیوں نہ ہوں ۔[حب رسول اللہﷺ حضرت علیؓ  کی محبت سے عظیم تر ہے، اس کے باوجود آپ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے دوزخ میں جائیں گے اور آپ کی شفاعت کی بنا پر جہنم سے نکلیں گے]۔تو پھر حضرت علیؓ کی محبت کے ساتھ کوئی برائی نقصان کیسے نہیں دے سکتی؟

پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر آپ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے جنہوں نے آپ کو دیکھا تھا ‘ اور آپ کے ساتھ مل کر دوسرے لوگوں سے جنگیں کی تھی ۔وہ دوسرے لوگوں کی نسبت اپنے دعویٰ میں بہت بڑھ چڑھ کر تھے ؛ مگر حضرت علیؓ پھر بھی ان کی مذمت کیا کرتے اور ان پر عیب جوئی کیا کرتے تھے؛ ان پر طعن کرتے اور جو کچھ ان لوگوں نے آپ کے ساتھ کیا تھا اس سے برأت کا اظہار فرماتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ان کے بدلے میں انہیں انتہائی  برا حکمران دے دے اور ا ن برے ساتھیوں کے بدلے میں انہیں انتہائی اچھے ساتھی عطاء فرما دے۔ اور اگر ان شیعہ کا کوئی اور گناہ نہ بھی ہوتا تو صرف جنگوں میں جو ان لوگوں نے حضرت کو ذلیل کیا ‘ اور آپ کے احکام کی نافرمانی کی[یہی رسوائی ان لوگوں کے لیے کافی تھی]۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے زمانے کے بہترین شیعہ تھے ۔ اور حضرت علیؓ واضح فرماتے ہیں کہ:’’ ان لوگوں کے گناہ انہیں نقصان پہنچا رہے  ہیں ‘‘ ؛ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو شر و فساد میں اس دور کے شیعہ سے دو ہاتھ آگے ہیں ۔

خلاصہ کلام ! ایسی بات کہنا کفر ہے ۔ یہ کہنے والے سے توبہ کروانی چاہیے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر او رآخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی بے ڈھنگ بات کہے ۔

ایسے ہی رافضی مصنف کا قول : ’’ حضرت علیؓ سے بغض رکھنا وہ برائی ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی کام نہیں آتی۔‘‘

جواب : اگر آپ سے بغض رکھنے والا کافر ہے تو پھر یقیناً وہ اپنے کفر کی وجہ سے انتہائی بدبخت ہے ۔ اور اگر مؤمن ہے تو اسے اس کے ایمان سے فائدہ ضرور پہنچے گا بھلے وہ آپ سے بغض رکھنے کی غلطی کررہا ہو۔ [علیؓ کی محبت ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی برائی نقصان دہ نہیں ہے۔اور بغض علی ایسی برائی ہے جس کی موجود گی میں کوئی نیکی بھی فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل القمی: 96( فی فضائل الامام علی علیہ السلام ] نیز آپ کی طرف یہ بھی منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ( حالانکہ آپ اس الزام سے بری ہیں ):’’۔ اگر تمام مخلوق علی بن أبی طالب کی محبت پر جمع ہو جاتی تو اﷲ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل( خبر المقدسی )] اور ایک بہتان یہ بھی آپ کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ کوئی بھی غلام یا باندی ایسے نہیں مرتے جن کے دل میں مثقال کے ایک ذرہ کے برابر بھی حضرت علیؓ  کی محبت ہوگی ؛ مگر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے ۔‘‘ الآمالي للطوسي صفحہ 330؛ ح: 107۔ بشارۃ المصطفی صفحہ 361؛ ح: 46۔ کشف الغمۃ 2؍23۔ فصل في ذکر مناقب شتی و أحادیث متفرقۃ۔]

رافضی مصنف کی ابنِ مسعودؓ  سے ذکر کردہ روایت کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے :’’ آلِ محمد سے ایک دن محبت کرنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔اور جس کا انتقال اس محبت پر ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘

یہ روایت بھی موضوع ہے۔

اسی طرح یہ روایت :’’ میں اور علیؓ   اللہ کی مخلوق پر حجت ہیں ۔‘‘ کھلا ہوا کذب ہے۔

اہلِ علم پر ان دونوں روایات کا جھوٹ ہونا صاف واضح ہے ۔ایک سال کی عبادت میں ایمان ؛روزانہ کی پانچ نمازیں ‘ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آلِ محمدﷺ  سے ایک ماہ کی محبت ان اعمال کے قائم مقام نہیں ہوسکتی تھی ؛تو پھر ایک دن کی محبت کیسے اس کے بدلے میں کافی ہوسکتی ہے؟

ایسے ہی بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت صرف اس کے رسولوں کے ذریعہ قائم ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء:165)

’’ تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد آئمہ اور اؤصیاء وغیرہ بھی حجت ہوسکتے ہیں ۔

محبت علیؓ  کا دعویٰ اور ایک اور جھوٹی روایت 

[شبہ]: ایسے ہی شیعہ مصنف کا دعویٰ ہے کہ :’’ اگر تمام لوگ حضرت علیؓ  کی محبت پر جمع ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا ہی نہ کرتے۔‘‘ [حضرت جعفر الصادق کی طرف ایک بہتان یہ بھی تراش کر منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اولین و آخرین میں سے جنت میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے جو حضرت علیؓ سے محبت کرتے ہوں گے ۔ اور اولین و آخرین میں سے صرف وہی لوگ جہنم میں داخل ہوں گے جو حضرت علیؓ سے بغض رکھتے ہوں گے ۔‘‘[علل الشرائع ؍162؛ ح: 1؛ باب 130۔ ’’العلۃ التي من أجلہا صار علی بن ابی طالب قسیم اللہ بین الجنۃ والنار۔ مختصر بصائر الدرجات صفحہ 485؛ ح: 576۔ بحار الأنوار 39؍ 195۔ ح: 5؛ باب أنہ قسیم الجنۃ والنار وجواز الصراط]

جواب: یہ کذب صریح ہے۔اس کے جھوٹ ہونے پر تمام اہلِ علم و ایمان کا اتفاق ہے ۔اس لیے کہ اگر سارے لوگ حضرت علیؓ سے محبت کرنے پر جمع ہو جائیں تو انہیں اس کا کوئی فائدہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ پر ؛ اس کے فرشتوں پر ؛ اس کی کتابوں پر؛ اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہ لائیں اور نیک اعمال نہ کریں ۔جب وہ ایسا کر لیں تو جنت میں داخل ہو جائیں گے بھلے انہیں حضرت علیؓ کے بارے میں کوئی معرفت ہی نہ ہو۔اور ان کے دل میں حبِ علی یا بغض علیؓ کا خیال تک بھی نہ آئے ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : 

﴿بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾(البقرہ112) 

’’سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء 69] 

’’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسولﷺ  کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور نیک لوگ، یہ بہترین ساتھی ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِہِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَoاُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ﴾ [آل عمران 133۔136]۔

’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ۔غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے؛ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر کرتے اور اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ جو علم کے ہوتے ہوئے کسی بھی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے۔‘‘

یہ جو لوگ جنت میں جائیں گے ‘ ان کے لیے کہیں پر بھی حب علیؓ کی شرط کا ذکر نہیں کیا گیا ۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا oاِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاoوَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا oاِِلَّا الْمُصَلِّینَ oالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَائِمُوْنَ ﴾ [المعارج 19۔22]

’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے۔جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔مگر وہ نمازی جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرنے والے ہیں ۔‘‘

[یہاں سے آگے تک اللہ تعالیٰ نے کئی نیک اعمال ذکر کیے ان کے آخر میں جاکر فرمایا] :

﴿اُوْلٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُکْرَمُوْنَ ﴾ [المعارج35]

’’یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘

نبی کریمﷺ کے پاس کئی وفود آئے ؛ وہ آپ پر ایمان لائے؛ اور آپﷺ  پر ایسے لوگ بھی ایمان لائے جو آپ کو دیکھ نہیں سکے۔ اور نہ ہی انہوں نے حضرت علیؓ کا نام سنا ؛ نہ ہی آپ کو جانتے تھے ؛ اس کے باوجود وہ مؤمنین اور متقی ہیں ۔ اور جنت کے مستحق ہیں ۔

اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ رافضہ ؛ نصیریہ اور اسماعیلیہ کا محب علیؓ  ہونے کے دعویٰ پر اجماع ہے۔مگر اس کے باوصف ان کی اکثریت جہنم کا ایندھن ہیں ،بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والے ہیں ۔[ اور ہم علیؓ سے محبت رکھنے کے باوجود دوزخ سے ڈرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کرنے والے بہت سے لوگ جنت میں جائیں گے، حالانکہ وہ علیؓ کے نام سے بھی آشنا نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ کا ذکر کردہ ضابطہ بے بنیاد ہے]۔