حضرت مولانا علامہ حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ کا فرمان
امیر عظیمت مجدد وقت امام سنی انقلاب حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ فرماتے ہیں کہ تعلیم سے فراغت کے بعد کیونکہ میرا ضلع جھنگ تھا اور اس میں شیعہ جارحیت زوروں پر تھی اور جنگ کو آج بھی ثانی لکھنؤ شمار کیا جاتا ہے (واضح رہے کہ لکھنؤ شیعہ جارحیت اور مظالم کا گڑ ہے) اسی دوران مجھے شیعیت پر وسیع مطالعہ کرنے کا موقع ملا جہاں شیعہ کتب کا مطالعہ کیا وہاں میری برادری کے سب لوگ ان پڑھ تھے اس لیے میں نے سوچا ان کو جلد ہی مسلمان کر دوں گا لیکن آپ یقین کریں کہ جس کی وجہ سے میں شیعہ کو علی الاطلاق کافر کہنے پر مجبور ہو گیا وہ یہ ہے کہ میں اس چیز کا تجربہ کر کے دیکھ چکا ہوں۔
کہ ایک ان پڑھ شیعہ آدمی کی وہی تمام نظریات رکھتا ہے جو ایک شیعہ مجتہد عالم یا رہنما کے ہوتے ہیں۔
مثلا صاف لفظوں میں، میری برادری کے ایک فرد نے جو اردو کا ایک لفظ پڑھا ہوا نہیں تھا اس نے صاف صاف لفظوں میں مجھے کہہ دیا مولوی صاحب ! تم یہ کیا بات کرتے ہو یہ قرآن تو محض لکیریں ہیں جو حضرت عثمان غنیؓ نے کھینچی ہیں یہ اصلی کتاب نہیں ہے۔
یہ ہے وہ حقیقت جو سارے حضرات پر اس لیے نہیں کھلتی کہ ان کا اتنا واسطہ شیعیت سے نہیں پڑا، جتنا مجھے پڑا ہے۔برادری کے لحاظ سے جھنگ کے لحاظ سے پھر شروع سے شیعہ لٹریچر پڑنے کے لحاظ سے، تو ان کی یہ باتیں سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا کے ایک ان پڑھ آدمی (عام شیعہ) وہ میرے ساتھ یہ گفتگو قرآن کے متعلق کر رہا ہے تو ان کا ہر آدمی قطعاً یہ عقیدہ رکھتا ہے چاہے وہ اس کا اظہار کسی مجبوری کے تحت نہ کرے۔
(میں نے سپاہ صحابہ کیوں بنائی: صفحہ نمبر، 7)