مولانا ڈاکٹر علامہ خالد محمود رحمۃ اللہ کا فتویٰ
سوال: بعض لوگوں نے علامہ شامیؒ کے بارے میں سمجھ رکھا ہے کہ آپ شیعوں کی علی الاطلاق تکفیر کے قائل نہیں تھے؟
جواب: حقیقت یہ ہے کہ علامہ شامیؒ نے شیعوں کو قریب سے بہت کم دیکھا تھا اور نہ اس وقت شیعہ کی عام کتابیں ملک شام پہنچتی تھی۔علامہ شامیؒ محمد علی پاشاہ کے زیر اثر تھے اور یہ بات صحیح ہے کہ ترکوں کے ہاں اس وقت شیعیت خلافِ قانون تھی ترکوں کے ہاں شیعیت کا ابتدائی تعارف صرف یہ تھا:کہ کچھ لوگ ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتے ہیں اور شیخینؓ کی خلافت کو حق نہیں مانتے اپنے اپ کو شیعانِ علی کہتے ہیں اور بس۔
شیعوں کے دوسرے کفریہ عقائد (جیسے موجودہ قرآن پاک میں تحریف کا قائل ہونا آئمہ اہلِ بیت کو سابقین انبیاء علیہم السلام سے افضل ماننا عقیدۂ امامت سے مفہوم ختم نبوت کا انکار کرنا قیامت کو جی اٹھنے سے پہلے اس دنیا میں دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور اکرمﷺ اس دنیا میں کامیاب نہ ہو سکے تھے وغیرہ وغیرہ) وہاں متعارف نہ تھے اور نہ عموی طور پر شیعوں کے عقائدِ سبعہ معروف تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہنا کفر ہے یہ بحث علامہ کے سامنے خوارج کی بحث سے چلی. جو سیدنا علیؓ سیدنا امیر معاویہؓ حضرت عمر بن عاص ؓ کو برا کہتے تھے اب مسئلہ یہ اٹھا کے خوارج کو اس غلطی پر کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟علامہ ابن ہمامؒ کا فتویٰ تھا کہ جمہور فقہاء اور محدثین کے ہاں خارجی باغی ہیں کافر نہیں مگر بعض محدثین ان کے کفر کے قائل تھے
علامہ ابن ہمامؒ کا فتویٰ تھا کہ صحابی کسی شبہ اور تاویل کی بنا پر برا کہنا گمراہی ہے۔مگر کفر نہیں سو اگر کسی صحابی کو کسی خارجی عمل کے باعث برا کہے تو وہ مبتاع اور ضال ہے۔ یہ ان لوگوں کا حکم نہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر جلیں وہ بلاشبہ کافر ہے۔ لیغیط بھم الکفار قران کریم کی نص ہے۔
علامہ ابن ہمامؒ کی مراد ہرگز یہ نہیں تھی کہ قطعیاتِ اسلام کا انکار بھی کفر نہیں آپ نے المسائرہ میں یہ بات وضاحت سے لکھی ہے کہ ضروریات دین اور قطعیات میں سے کسی ایک کا بھی انکار ہو تو انسان مسلمان نہیں رہتا۔
علامہ شامیؒ نے جو احتیاط اختیار کی وہ علامہ ابن ہمامؒ کے فتح القدیر کے بیان کی روشنی میں تھی لیکن جب آپ نے علامہ ابن حمامؒ کی کتاب المسائرہ میں قطعیات اسلام کے انکار کا کفر ہونا دیکھا تو آپ نے کھل کر ان لوگوں کو کافر کہا، جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے صحابیٔ رسولﷺ کے منکر ہو یا سیدہ عائشہؓ پر تہمت کے قائل ہو یا قرآن کریم کی تحریف کے قائل ہو۔
اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ حضرات شیخینؓ جنتی ہونے رسول اللہﷺ کے رضا یافتہ ہونے کے باوجود خلیفۂ برحق نہ تھے اور خلافت آپ محمدﷺ نے سیدنا علیؓ کو دی تھی اور غدیر خم میں سیدنا علیؓ کے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا تھا( گو ایسا کبھی نہ ہوا تھا)تو ایسا شخص مبتدع اور گمراہ ہے اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا منکر ہے لیکن بعض فقہا اسے کافر نہیں کہتے بلکہ اس بات میں بحث کرتے ہیں کہ اس نے قطعیات اسلام اور متواترات دین میں سے کسی بات کا انکار کیا ہے یا نہیں؟ اب اگر اس میں کچھ اختلاف ہو اور علامہ شامیؒ ایسے شخص کو کافر نہ کہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اثناء عشری شیعوں کو بھی کافر نہیں کہتے ہیں۔
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے جن وجوہات کی بنا پر شیعہ پر کفر کا فتویٰ دیا وہ سب وجوہات اس عشری شیعوں میں موجود ہیں اور ان وجوہات کو علامہ شامیؒ ڈٹ کر کفریہ کہہ رہے ہیں۔ اور ان امور کے کفریہ ہونے میں کبھی آپؒ کو شبہ نہ ہوا اور جن شیعوں پر علامہ شامیؒ نے عدم تکفیر کا فتویٰ دیا ہے ایسا کوئی شیعہ دنیا میں عموماً نہیں دیکھا گیا۔
فتاویٰ شامی میں آپؒ نے کھل کر شیعہ کی تکفیر کی ہے: نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشہؓ او انکر صحبة ابوبکر صدیقؓ او اعتقد الالوھیہ في علیؓ او ان جبرائیل علیہ السلام غلط فی الوحی
(رد المختار شامی: جلد، 3 صفحہ نمبر، 406)
(ایضا مرقات: جلد، 11 صفحہ نمبر، 172)
یاد رکھیں!
علامہ شامیؒ نے شیعہ کی تکفیر میں جو احتیاط کی ان موہوم افراد کے بارے میں ہے جن کا قائل دنیا میں عملاً کوئی نہیں۔
اثناء عشری شیعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہنے میں اپنے سے بہت آگے جا کر ان تمام عقائد کے حامل ہیں جن کی تکذیبِ رسول اللہﷺ لازم آتی ہے۔ان کے عقائد سبعہ میں سے ایک عقیدہ کفر صریح ہے اگر کوئی شخص سیدہ عائشہؓ پرحد لگنے کا عقیدہ رکھے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو صحابی نہیں بلکہ منافق جانے یا قرآن پاک میں کمی بیشی کا عقیدہ رکھے تو ایسا کون سا عالم دین ہو سکتا ہے جو ان کو کافر نہ کہے۔۔۔۔؟؟؟
سو جان لینا چاہیے کہ اثناء عشریوں کے کفر میں اب تک کسی مقتدر عالم دین نے شک نہیں کیا اور نہ علامہ شامیؒ کو اس باب میں کسی قسم کا شک تھا۔ ہاں اگر کوئی یوں کہے علامہ ابن عابدینؒ علی الاطلاق شیعوں کے کفر کے قائل نہ تھے مگر اس عشری شیعوں پر کھلا کفر کا فتویٰ دیتے تھے تو یہ بات درست ہو سکتی ہے حضرت مولانا محمد انور شاہؒ کی مراد اس عبارت سے یہی ہے۔
اور حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ جنہوں نے شیعوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور انہوں نے شیعوں کی اصل کتابیں بھی پڑھی تھی وہ ان کے علی الاطلاق کفر کے قائل تھے حضرت شاہؒ (فیض الباری: جلد، 1 صفحہ نمبر، 120 پر فرماتے ہیں )
پھر شیعوں کی تکفیر میں اختلاف ہوا علامہ شامیؒ انہیں کافر نہیں کہتے اور علامہ مولانا انور شاہ عبدالعزیزؒ نے انہیں کافر کہا ہے اور فرماتے ہیں کہ جس نے انہیں کافر نہیں کہا اس نے ان کے عقائد کو نہیں جانا اور میرا فتویٰ ان کے کفر کا ہے۔
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دو بزرگوں میں مسئلے کا کوئی اختلاف نہیں۔بلکہ تحقیقِ واقعہ میں اختلاف رہا کہ اثناء عشری شیعوں کے پورے عقائد کیا ہیں دونوں حضرات مختلف درجوں میں مطلع تھے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شعیت کے بارے میں حضرت شاہؒ کی نظر وسیع تھی سو ایسے شیعہ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ جن پر علامہ شامیؒ نے عدم تکفیر کا فتویٰ دیا ہو یعنی کافر نہ کہا ہو
(عبقات: جلد، 2 صفحہ نمبر، 243 تا 248)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
خمینی ملعون اپنی کتاب الحکومت الاسلامیہ کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں کہ ہمارے شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے ہے کہ ہمارے 12 اماموں کا درجہ اتنا بلند ہے کہ مقرب فرشتے اور انبیاء اور مرسلین بھی اس کو نہیں پہنچ سکتے۔
میرے محترم قارئین کرام!
فرقہ کرامیہ تحریفِ قرآن کے قائل نہ تھے۔ نہ وہ عثمانی ماموریت کو جاری سمجھتے تھے لیکن محض اس بات پر کہ وہ بعض اولیاء کرام کو نبی سے افضل کہتے تھے علماء کرام نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ائمہ کو جو اہل اسلام کے نزدیک زیادہ سے زیادہ اونچے درجے کے اولیاء ہو سکتے ہیں انبیاء کرام و مرسلین علیہم السلام سے افضل ماننا ایک مستقل وجۂ کفر ہے اور اس میں شیعہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔
حضرت ملا علی قاریؒ (شرح فقہ اکبر: صفحہ نمبر، 147) پر لکھتے ہیں کہ ولی نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ انبیاء معصوم ہیں خاتم بالشر سے مامون (امن پائے ہوئے ) ہیں وہی سے عزت یافتہ یہاں تک کہ ان کا خواب بھی وہی ہے وہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں تبلیغ احکام پر مامور ہیں سو جو بعض کرامیہ سے منقول ہے کہ اونچے درجے کا ولی کبھی نبی سے بڑھ بھی ہو سکتا ہے تو یہ عقیدۂ کفر ہے ذلالت ہے بڑا ٹیڑھا کفر ہے جاہلیت ہے۔
افسوس کے خمینی اس عقیدۂ کفریہ کو اپنے عقیدے کی ضروریات میں سے سمجھتے ہیں اب آپ ہی غور فرمائیں کہ یہ اثناء عشری شیعہ اپنے اس صریح کفر کے ساتھ کیسے مسلمان سمجھے جا سکتے ہیں؟
اثناء عشری عقائد میں سے یہ عقیدہ جتنا خمینی نے واضح کر کے لکھا ہے اس کی مثال شیعہ کی پہلی بار سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔اب یہ کیسے مان لیا جائے کہ اثناء عشری شیعہ تو بے شک کفر پر تھے لیکن خمینی ملعون نے انہیں اس دور میں نیا شعور بخشا ہے ہرگز نہیں۔
(عبقات: جلد، 2 صفحہ نمبر، 255)