Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل روایت : لا فتی الا علی

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل  روایت : لَا فَتٰی اِلَّا عَلِّیٌ

[شبہ]:حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ  نے ایک دن فرمایا تھا:

’’ میں خود نوجوان، نوجوان کابیٹا اور نوجوان(حضرت علی) کا بھائی ہوں ۔‘‘میں نوجوان ہوں یعنی عرب کے نوجوان بہادروں میں سے ہوں ۔اور نوجوان کا بیٹا ہوں ‘ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْمُ﴾ [الأنبیاء 60]

’’بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم علیہ السلام کہا جاتا ہے ۔‘‘

اور نوجوان کے بھائی سے مراد علیؓ ہیں ۔یہی جبرئیل کے قول سے مراد ہے ۔حضرت جبرئیل جنگ بدر کے دن خوش و خرم آسمان کی جانب چڑھے اور وہ کہہ رہے تھے:’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقَارِ وَ لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ۔‘‘(تلوار ہے تو ذوالفقار اور نوجوان ہے تو علی)۔[انتہی کلام الرافضی]

[جواب] : سابقہ روایات کی طرح یہ روایت بھی کذب اور من گھڑت ہے۔اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے۔اسکی سند کے علاوہ بھی کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوتا ہے: [ڈاکٹر رشاد سالم محقق منہاج السنۃ فرماتے ہیں : (( لم أجِدِ الجزء الأول مِن ہذا الحدِیثِ الموضوعِ، وأما الجزء الأخِیر مِنہ وہو: لا سیف ِإلا ذو الفقارِ ولا فتی ِإلا علِی، فوصفہ بِالوضعِ وتکلم علی الکذابِین مِن رواتِہِ کل مِنِ ابنِ الجوزِیِ فِی الموضوعاتِ:2م1؍381، والسیوطِیِ فِی اللآليِئِ المصنوعۃِ:1؍364۔ وعلیِ القاريِئِ فِی الأسرارِ المرفوعۃِ صفحہ:384، 375 وابنِ عِراقی الِکنانِیِ، فِی تنزِیہِ الشرِیعۃِ: 1؍375، وابنِ العجلونِیِ فِی کشفِ الخفائِ:2؍363۔]

¹ـ  ’’اَلْفَتٰی‘‘ کا لفظ کتاب و سنت اور لغت عرب میں اسماء مدح و ذم میں سے نہیں ۔ بلکہ ’’الشَّابّ‘‘(جوان) اور ’’اَلْکَہْل‘‘ (ادھیڑ عمر کا ) کی طرح مطلق اسم ہے۔ مشرکین کا قول﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْم ﴾ یہ جملہ کہنے والے کافر تھے؛ اور ان کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدح کرنا نہیں تھا۔ فتی چڑھتے ہوئے نوجوان کو کہا جاتا ہے۔

²ـ  نبی کریمﷺ اس سے بلند و بالا ہیں کہ اپنے دادا یا چچا زاد پر فخر کا اظہار کریں ۔

³ـ  نبیﷺ  نے حضرت علیؓ کو اپنا بھائی نہیں بنایا تھا۔یہ حدیث کہ نبیﷺ  نے حضرت علیؓ  کو اپنا بھائی بنایا تھا اور حضرت ابوبکرؓ  نے حضرت عمرؓ  کو، صریح کذب ہے ۔ البتہ یہ درست ہے کہ آپ نے مہاجرین و انصار کے مابین مواخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔مہاجرین کا باہم ایسا کوئی رشتہء بھائی چارگی قائم نہیں ہوا۔

⁴ـ  بدر کے موقع پر اس قسم کی کوئی آواز نہیں سنی گئی ‘ اورنہ ہی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا۔

⁵ـ  ذوالفقار حضرت علیؓ  کی تلوار نہیں تھی؛بلکہ یہ ابوجہل کی تلوار کا نام ہے۔ غزوۂ بدر میں یہ تلوار مال غنیمت میں مسلمانوں کو ملی تھی۔بدر کے موقع پر ذوالفقار مسلمانوں کی تلوار نہیں تھی۔بلکہ اس وقت یہ تلوار کفار کے پاس تھی۔ امام احمد و ترمذی نے ابنِ عباس سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ  نے ذوالفقار نامی تلوار غزوۂ بدر میں انعام کے طور پر دے دی تھی۔[سنن ترمذی، کتاب السیر ۔باب فی النفل،(ح:1516)وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن غرِیب،، سنن ابن ماجہ (2808) کتاب الجِہادِ باب السِلاحِ، وجاء الحدِیث مطولا فِی: المسند ط۔ المعارِفِ:4؍146]

⁶ـ  نبی کریمﷺ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اَنَا فَتٰی‘‘ کہنے کی روایت بھی جھوٹ ہے، کیوں کہ جب آپ نبوت پر سرفراز ہوئے تو اس وقت نوجوان نہ تھے، بلکہ ادھیڑ عمر کو پہنچ چکے تھے۔