دسویں فصل: شیعہ کی وضع کردہ احادیث؛ خطیب خوارزمی کی روایت
امام ابنِ تیمیہؒدسویں فصل: ....شیعہ کی وضع کردہ احادیث؛ خطیب خوارزمی کی روایت
[شبہ] : شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’خطیب اعظم خوارزمی [اخطب خوارزم(خطیب اعظم خوارزمی) ایک شیعہ ادیب ہے، یہ زمخشری کا شاگرد تھا۔ اس کا نام الموفّق بن احمد بن اسحاق (484، 568) ہے۔ دیکھیے: بغیۃ الوعاۃ، صفحہ: 401، نیز روضات الجنہ طبع ثانی،صفحہ:722۔ اخطب خوارزم کی کتاب کا نام ’’مناقب اہل البیت‘‘ ہے۔ مقام افسوس ہے کہ غریب اہل بیت کی مدح میں شیعہ نے جھوٹی روایات وضع کرکے ان پر کتنا بڑا ظلم ڈھایا ہے۔‘‘]نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ اے علی! اگر کوئی شخص اس قدر عرصہ دراز تک اللہ کی عبادت کرے جتنا عرصہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٹھہرے تھے اور احد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں صرف کرے؛ اور پا پیادہ ایک ہزار مرتبہ حج کرے ؛پھر بحالت مظلومی صفاء و مروہ کے مابین مارا جائے؛ اور اے علی ! وہ تجھے دوست نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی
نہ سونگھے گا اور نہ وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘[مزید من گھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں ]:
¹۔ ایک شخص نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت علیؓ سے اتنی شدید محبت رکھتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جس نے حضرت علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔اور جس نے علی سے عداوت رکھی یقیناً اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔‘‘
²۔ حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کے چہرے کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کیے ہیں ، جو حضرت علیؓ اور ان سے محبت رکھنے والوں کے لیے تاقیامت مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔‘‘
³۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :’’جو حضرت علیؓ سے محبت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نماز و دعا اور صیام و قیام کو قبول فرماتے ہیں ۔‘‘
⁴۔ جو حضرت علیؓ سے محبت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر رگ و ریشہ کے عوض جنت میں ایک شہر عطا کریں گے۔ جو شخص آلِ محمد سے محبت کرتا ہے وہ حساب و میزان اور پل صراط سے خائف نہ ہو گا۔ نیز جس کی موت حب آلِ محمد پر ہوگی میں اسے جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ لے جانے کا ضامن ہوں ۔ جو شخص آلِ محمد سے بغض رکھے گا بروزقیامت اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ’’ خداکی رحمت سے ناامید۔‘‘
⁵۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : میں نے سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے :’’ جس کا یہ خیال ہو کہ وہ مجھ پر اور قرآن پر ایمان لایا ہے مگر وہ علی سے بغض رکھتا ہو‘ وہ جھوٹا ہے ‘ وہ ہر گز مؤمن نہیں ہوسکتا ۔‘‘
⁶۔ حضرت ابوبرزہؓ سے روایت ہے: ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی انسان کے قدم بروز ِ قیامت اپنی جگہ سے سرکنے نہیں پائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کرلیں : ’’ اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں فنا کیا ؟اور اس کے جسم کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اسے کس چیز میں بوسیدہ کردیا ؟ اور اس کے مال کے بارے میں سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ اور ہم اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا؟‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا: آپ کے بعد آپ کی محبت کی نشانی کیا ہے ؟ تو آپ نے اپنا دست مبارک حضرت علیؓ کے سر پر رکھا ؛ آپ اس وقت آپ کے پہلو میں کھڑے تھے ؛ اور فرمایا: بیشک میرے بعد میری محبت اس سے محبت رکھنا ہے ۔‘‘
⁷۔ عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ:’’ نبیﷺ سے دریافت کیا گیا تھا کہ شب معراج اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس زبان میں مخاطب کیا؟ آپ نے فرمایا’’علی کے لہجہ میں ‘‘پھر میں نے بنا بر الہام پوچھا ’’بار خدایا کیا تو نے مجھے مخاطب کیا یا علی نے ‘‘؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں دیگر اشیاء کی طرح نہیں ۔ میں نے تجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور علی کو تیرے نور سے خلق کیا۔ جب میں نے تیرے دل کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ، لہٰذا اسی کے لہجہ میں آپ کو مخاطب کیا تاکہ آپ مطمئن رہیں ۔
⁸۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’اگر سب باغات قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں ۔ جنات حساب دار اور سب بنی نوع انسان کاتب بن جائیں تو پھر بھی حضرت علیؓ کے محاسن تحریر کرنے سے قاصر رہیں گے۔‘‘
⁹۔ اس نے اپنی سند سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کے فضائل پر اتنا زیادہ اجر رکھا جس کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کسی فضیلت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا تذکرہ کرے ‘ تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دیتے ہیں ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کوئی ایک فضیلت لکھتا ہے ‘ تو ملائکہ اس وقت تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیں گے جب تک وہ کتاب اور وہ لکھا ہوا باقی رہے گا ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل میں سے کوئی فضیلت سنتا ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں جو اس نے سننے میں کئے ہوں ۔ اور جو کوئی آپ کے فضائل پر مشتمل کتاب کو دیکھے ؛ تو اللہ تعالیٰ نظر کی وجہ سے ہونے والے اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیں گے۔ پھر فرمایا: ’’ امیر المؤمنین کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ‘ آپ کا ذکر خیر کرنا عبادت ہے ؛ اور اللہ تعالیٰ آپ سے دوستی اور آپ کے دشمن سے برأت کے بغیر کسی انسان کا ایمان قبول نہیں فرماتے ۔
¹⁰۔ حکیم بن حزام اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ‘ انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے ؛ بیشک آپﷺ نے فرمایا: ’’ خندق کے دن عمرو بن عبد ود کے مقابلہ میں حضرت علیؓ کا نکلنا میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے زیادہ افضل ہے ۔
¹¹۔ سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان ہے کہ معاویہؓ نے انھیں حضرت علیؓ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ معاویہؓ نے وجہ پوچھی کہ تم علی بن ابو طالبؓ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ تو بتایاکہ مجھے نبی کریمﷺ نے تین باتیں بتائی تھیں ، اس وجہ سے میں ہر گز آپ کو گالی نہیں دوں گااور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو جائے تو وہ سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔میں نے سنا کہ بعض غزوات میں جب نبی کریمﷺ حضرت علیؓ کو مدینہ میں چھوڑ کر گئے اور حضرت علیؓ نے کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو نبی کریمﷺ نے جواب میں فرمایا:’’ اے علی! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘[رواہ البخاری5؍18۔ علامہ موسیٰ جار اللہ اپنی کتاب’’ الوشیعہ‘‘ میں ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ کی تشریح میں فرماتے ہیں :دراصل رسول اللہﷺ نے علیؓ کو فرمایا تھا کہ اگرچہ تیرا مقام نیکی میں بلند ہے لیکن سیدنا ہارون علیہ السلام کی طرح تم خلافت کا بوجھ نہیں اٹھا سکو گے، سیدنا ہارون چالیس دن بھی خلافت کا بار نہ اٹھا سکے اور مقصد یہ تھا کہ تم خلافت کے جھنجھٹ میں نہ پڑنا بلکہ تعلیم و تعلّم کے کام میں مشغول رہنا۔ حالانکہ ہارون نبی علیہ السلام تھے اور تم نبی بھی نہیں ہو ۔]غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: