یونان کے مشرک فلاسفہ پر نقد
امام ابنِ تیمیہؒیونان کے مشرک فلاسفہ پر نقد
یہ لوگ اگرچہ صائبین میں سے ہیں پس یہ صائبینِ مشرکین ہیں نہ کہ وہ صائبین جو ’’حنفاء‘‘ کہلاتے ہیں جن کو قرآن نے تعریفی کلمات سے یاد کیا ہے اس لیے کہ وہ لوگ تو کواکب کی عبادت کرتے تھے اور وہ اس کے لیے بڑے بڑے ہیکل اور مجسمے بناتے تھے پھر اس میں وہ اصنام (کندہ کرکے )بناتے تھے یہی تو مشرکین کا دین ہے اور یہ اہلِ مقدونیہ اور اس کے علاوہ دیگر امثال جیسے کہ مدائن والوں کا دین ہے جومشرکین تھے ۔
اس طرح وہ اسکندر جس کا ارسطو وزیر بنے ،وہ اسکندر فلبس المقدونی تھا ،جس کی یہود و نصاریٰ تعریف کرتے ہیں اور وہ عیسیٰ علیہ السلام سے تین سو سال پہلے گزرا ہے اور یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے اس لیے کہ یہ تو اس پر مقدم تھا اور وہ حنفاء مسلمین میں سے تھا اور وہ اوراس کا وزیر یعنی ارسطو کفار تھے اور سحر اور شرک کے قائل تھے ،اسی وجہ سے (شیعوں کے فرقے )اسماعیلیہ نے اپنے اقوال عقل اور نفس کے بارے میں ان لوگوں سے لیے ہیں اور اس طرح وہ نظریات جس کے مجوس قائل ہیں یعنی نور اور عظمت کے قائل ہیں پس انہوں نے اس کو سابق اور تالی کے ساتھ تعبیر کیا جس طرح کہ اس کو اپنی جگہ پر بیان کیا گیا ہے اور مشرکین اور معطلہ کی بنیاد بالکل باطل ہے ۔
اسی طرح مجوس اور قدریہ ان کی بنیاد بھی بالکل باطل ہے جو کہ بعض حوادث کو اللہ کے صفتِ خلق سے نکال لیتے ہیں اور قدرت سے اور وہ اس کے لیے اور اس کے لیے ملک اور سلطنت میں اس کو شریک قرار دیتے ہیں اور یہ دہریہ تو ان سے بھی زیادہ بدترین ہیں اس لیے کہ ان کا قول توتمام حوادث کا اللہ کے خلق اور اس کی قدرت سے نکالنے کو مستلزم ہے اور اس کے ساتھ سلطنت اور حکومت میں بہت سے شرکاء کے اثبات کو مستلزم ہے بلکہ بالکلیہ صانع ذات کے تعطیل کو مستلزم ہے (یعنی کہ صانع کی ذات ہی موجود نہیں )اسی وجہ سے ان کے معلمِ اول یعنی ارسطو اور اس کے اتباع (پیروکار)وہ اس اول کو ثابت کرتے ہیں جس کو یہ حرکتِ فلک سے استدلال کرتے ہوئے علتِ اولیٰ کانام دیتے ہیں اس لیے کہ بے شک وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اختیاری اور شوقی چیز ہے پس ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی محرک ہو جو اس سے منفصل اور جدا ہوتا ہو اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ متحرک بالارادہ کے لیے ایسے محرک کا ہونا ضروری ہے جو اس سے منفصل اور جدا ہے اگرچہ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ ایک باطل قول ہے اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا محرک اس کو اسی طرح حرکت دیتا ہے جس طرح کہ امام مقتدی کو حرکت دیتا ہے اور کبھی اس کو اس حرکت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں جو معشوق کی طرف سے عاشق میں پیدا ہوتی ہے۔
اس لیے کہ محبوب جو مراد ہوتا ہے تو محب اس کا ارادہ کرنے والا ہوتا ہے ،متحرک ہوتا ہے محبوب کی طرف سے بغیر کسی حرکت کے پائے جانے کے ،انہوں نے کہا کہ یہی عشق اول کے ساتھ تشبہ کا عشق ہے ۔