Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ابن ملکا کے قول کے مشابہ اعتراض اور اس پر رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

ابن ملکا کے قول کے مشابہ اعتراض اور اس پر رد

اگر یہ کہا جائے کہ وہ ذات کسی قدیم چیز کو توارادہ قدیمہ کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور ان حوادث کا جو اس کے بعد وجود میں آنے والے ہیں ان کوایسے ارادے کے ذریعے وجود دیتا ہے جو (پہلے قسم کے ارادے سے ) متعاقب ہے یعنی قدیم چیز کے ارادے کے بعد ہے جس طرح کہ فلاسفہ کی ایک جماعت کا خیال ہے اور یہ ’’المعتبر‘‘ کے مصنف کے قول کے مشابہ ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ :

اولاً :.... یہ کہ کسی چیزکا مراد ہونا اُس کے حدوث کو مستلزم ہے؛ بلکہ اس کے مفعول ہونے کا نفس تصور اس کے حدوث کو مستلزم ہے کیونکہ یقیناً کسی مفعولِ معین کا اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت یہ عقلی طور پر ابتداء میں ممتنع ہے ۔

ثانیاً :....یہ کہا جائے گا کہ اگر اس امرکا ممکن ہونا ثابت ہو جائے کہ اس ذات کے لیے ایسے ارادے ثابت ہوں جو یکے بعد دیگر ے وجو دمیں آتے ہیں اور اپنی نوع کے اعتبار سے دائم ہیں تو پھر عالم میں سے کسی چیز کے قدم کا قول ایک بے بنیاد اور بے دلیل قول ہوگا ۔

ثالثاً :.... یہ کہا جائے گا کہ بے شک وہ ذات اور فاعل جس کی شان یہ ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے اردوں کے ذریعے ایک شے کو دوسری شے کے بعد وجود دیتا ہے تو پھر اس کے ارادوں اور اس کے افعال میں سے کسی بھی شے کا قدیم ہوناممتنع ہو جائے گا اور ایسی صورت میں اس کے مفعولات میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ثابت ہو جائے گا لہٰذا نتیجۃً پورے عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ہو جائے گا ۔

رابعاً: ....اشکال کے جواب میں یہ کہا جائے گاکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ذات ازل میں اس معین چیز ( مثلاًفلک ) کا ایسا ارادہ کرنے والا ہے جومراد کے ساتھ مقارن اور متصل ہے تو یہ بات لازم آئے گی کہ وہ لوازم کایسا ارادہ ارادہ کرتا ہے جو مراد کیساتھ بالکل مقارن اور متصل ہے کیونکہ کہ یقیناً کسی بھی ملزوم کا لازم کے بغیر وجود محال ہے اور لازم کے لیے تو نوعِ حوادث ثابت ہیں اور کسی نوع کا ایسا ارادہ کرنا جو ازل میں اس کے مقارن ہو ،محال ہے کیونکہ ازل میں نوع کا بتمامہ پایا جانا (یعنی اس کے تمام افرادکا وجود میں آنا ممتنع ہے۔