Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

محرم کی بدعات کے لئے چندہ دینے اور تعزیہ بنانے کا حکم


سوال: ہر گاؤں میں مذہب کی ایک جماعت رہتی ہے اور رہنا ضروری ہے، اور ہر کسی کو جماعت کے ساتھ رہنا چاہئے۔

بات یہ ہے کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں محرم نکالنے کے واسطے ہر گھر سے ورگنی یعنی پیسے نکال کر تعزیہ نکالا جاتا ہے اور محرم کھیلا بھی جاتا ہے۔ اس لئے یہ ورگنی (چندہ) دینا اچھا ہے یا نہیں؟ اور اگر اچھا نہیں ہے تو کیوں؟ دراصل ہم پندرہ سال سے محرم میں شامل نہیں ہے؟ صرف جماعت کو برابر چندہ دیتے ہیں اور محرم کی مجالس پڑھنے جاتے ہیں، صرف جماعت کے برابر رہنے کے لئے ورگنی (چندہ) دینا پڑ رہا ہے۔ اس میں کچھ گناہ تو نہیں؟ 

جواب: تعزیہ سازی کا ناجائز ہونا اور اس کا خلاف دین ہونا اظهر من الشمس ہے، ادنی درجہ کے مسلمان کے لئے بھی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں اتعبدون ما تنحتون کیا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جس کو خود ہی نے تراشا اور بنایا ہے؟ 

ظاہر ہے کہ تعزیہ انسان اپنے ہاتھ سے بانس کو تراش کر بناتا ہے اور پھر منت مانی جاتی ہے اور اس سے مرادیں مانگی جاتی ہیں، اس کے سامنے اولاد و صحت کی دعائیں کی جاتی ہیں سجدہ کیا جاتا ہے، اس کی زیارت کو زیارت سیدنا امام حسینؓ سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ سب باتیں روحِ ایمان اور تعلیمِ اسلام کے خلاف نہیں ہیں؟ 

علامہ حیات سندھی ثم المدنیؒ المتوفی 1163 ھجری فرماتے ہیں کہ رافضیوں کی بُرائی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ سیدنا حسینؓ کی قبر کی تصویر بناتے ہیں، اور اس کو مزین کر کے گلی کوچوں میں لے کر گشت کرتے ہیں اور یا حسین یا حسین پکارتے ہیں اور فضول خرچی کرتے ہیں، یہ تمام باتیں بدعت اور ناجائز ہیں ۔

حضرت شاہ سید احمد بریلویؒ لکھتے ہیں کہ ماہِ محرم میں سیدنا حسینؓ کی محبت کے گمان میں ماتم اور تعزیہ سازی بھی روافض کی اُن بدعات میں سے ہے جو ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں، ان بدعتوں کی چند قسمیں ہیں۔ سب سے پہلے قبر ومقبرہ کی نقل علم وسدہ وغیرہ کہ یہ کھلے طور پر بت سازی اور بت پرستی کی قسم میں سے ہیں۔ 

حافظ ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں خبردار! خبردار یوم عاشوراء کو روافض کی بدعات میں ہرگز مشغول نہ ہونا، جیسا کہ مرثیہ خوانی، رونا چلانا اور ماتم کرنا یہ سب اُمور مسلمانوں کے نہیں، اور اگر ان کا کچھ بھی تعلق اسلام سے ہوتا تو حضور اکرمﷺ کی وفات کا دن اس ماتم سرائی کے لئے زیادہ مستحق تھا۔  

جناب مولوی احمد رضا خان بریلویؒ لکھتے ہیں کہ علم تعزیہ، بیرک مہندی جس طرح رائج ہے، بدعت ہے اور بدعت سے اسلام کی شوکت نہیں ہوتی تعزیہ کو حاجت روا یعنی ذریعہ حاجت روائی سمجھنا جہالت ہے، اور اس سے منت ماننا حماقت اور نہ کرنے والے کو باعث نقصان خیال کرنا زمانہ وہم ہے، مسلمانوں کو ایسی حرکت سے باز آنا چاہئے۔ 

مولوی حکیم محمد حشمت بریلویؒ لکھتے ہیں کہ تعزیہ داری جس طرح رائج ہے، متعدد معاصی (نافرمانی) ومنکرات یعنی خلافِ شرع باتوں کا مجموعہ اور گناہ و ناجائز و بدعت شنیعه و باعثِ عذاب الہی وطریقہ روافض ہے، اسے جائز نہیں کہے گا مگر بے علم اور احکام شرع سے نا واقف۔ 

حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار دوسری حدیث شریف میں ہے شر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة بس تعزیہ کا بنانے والا، رکھنے والا، اس میں دامے قدمے مدد کرنے والا، اس پر شیرینی چڑھانے والا، فاتحہ دینے والا سب گنہگار، مستحقِ عذاب نار ہیں۔ یہ سب باتیں بدعت واعانت علی المعصیت ہیں اور وہ حرام سخت عذاب کا باعث۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌  (سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 2)

مسلمانوں کو چاہئے کہ اس بدعت شنیعہ سے بموجب حدیث شریف: ایاکم و محدثات الامور بچیں اور دور ہیں، اور کسی بھی طرح اس میں شرکت نہ کریں۔ اس لئے آپ کا محرم کی بدعات کے لئے ورگنی یعنی چندہ دینا نا جائز اور حرام ہے۔ 

(محمود الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 436)