Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کے مذہبی پروگراموں میں اپنے مکان اور برتن وغیرہ کرایہ پر دینا اور اُن کے ساتھ تعاؤن کرنا اور شیعیت کی اسلام دشمنی


حضرت مولانا مفتی احمد خانپوریؒ کا فتویٰ

سابق صدر مفتی ، حال شیخ الحدیث، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل: 

سوال: امسال ماہِ محرم کے موقع پر شیعہ فرقہ کے رہنما، جسے وہ لوگ (وڈا مُلّا) کہتے ہیں، سورت آئے، اور دس دن تک ان کے پروگرام ہوئے۔ اس موقع پر ہمارے بعض اداروں نے اپنے مکان کرایہ پر ان کو دیئے، اور بعض مسجدوں کے برتن بھی اُن لوگوں کو کرایہ پر دیئے، بعض مسلم اخباروں نے ان کی تعریف کی اور مسلمانوں کے کچھ لیڈر استقبال کے لئے ائیر پورٹ گئے، اور اُن کے وڈا مُلا کا استقبال کیا۔ شیعوں کے عقائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق نہایت گندے اور خراب ہیں، اور ان لوگوں کے پروگراموں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخیاں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سبِّ وشتم ہوتا ہے۔

 چنانچہ سالِ گذشتہ اسی محرم الحرام کے موقع پر بمبئی میں اُن کے اسی وڈا ملا نے خلیفہ اول سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی شان میں سخت گستاخی کی تھی۔

ایسے لوگوں کو ان کے اپنے مذہبی پروگراموں کے موقع پر اپنے مکان اور مسجد کے برتن کرایہ پر دینا، ان کا تعاون شمار ہو گا یا نہیں؟ اور ان کو کرایہ پر دینے میں شرعی قباحت ہے یا نہیں؟ 

جواب:  روافض کے جو فرقے اس وقت دنیا میں موجود ہیں، ان میں فرقہ اثناء عشریہ کو تعداد اور بعض دوسری حیثیتوں سے امتیاز اور اہمیت حاصل ہے، اس کی ایک شاخ داؤدی بھی ہیں، جن کے مذہبی رہنما وڈا ملا ہیں، اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور فتنوں میں بعض فتنے انتہائی شدید اور خطرناک تھے، مگر اُن میں بھی روافض کا فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا، اس فرقہ کو جب بھی موقع ملا اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اس فرقہ کو بعض اوقات اقتدار بھی ملا تو اس نے موقع پر بھی بھرپور فائدہ اٹھایا، بیت اللہ پر حملہ کیا، حجرِ اسود کو اٹھا کر لے گئے، مسلمانوں کا قتل عام کیا، علمائے کرام کو شہید کیا، اسلام کے ساتھ شیعوں کا رویہ کیا رہا؟ شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہ کے الفاظ میں اس کا خلاصہ یہ ہے۔ فرمایا کہ روافض ہمیشہ یہود، نصاریٰ، تاتاری مشرکین وغیرہ، دشمنان اسلام کے ساتھ دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ان مخلص بندوں سے بُغض و عداوت رکھتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کے دیندار اور متقیوں کے سردار تھے، اور دین کی تبلیغ اور نصرت اور اسے قائم کرنے والے تھے۔ تاتاری کفار کے اسلامی ملکوں میں راہ پانے میں سب سے زیادہ فعل ان روافض ہی کا تھا، ابنِ علقمی اور نصیر طوسی وغیرہ کی دشمن نوازی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں اب ہر خاص و عام کو معلوم ہو چکی ہیں، شام میں جو روافض تھے انہوں نے بھی کُھلم کھلا کافروں کا ساتھ دیا تھا، اور غازان کی آمد پر جب لشکر اسلام کو شکست ہوئی اُس وقت عیسائیوں اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی انہوں نے پوری مدد کی تھی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی املاک اور ان کے بچوں کو ان کے ہاتھوں غلاموں کی طرح فروخت کیا تھا، اور مسلمانوں سے علانیتہً جنگ کی تھی ، بلکہ ان میں سے بعض نے تو صلیبی جھنڈا بھی بلند کیا تھا، اور گذشتہ دور میں عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ 

(منهاج السنة: جلد، 4  صفحہ، 101) 

اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اس طرزِ عمل کے علاؤہ شیعوں اور روافض کے عقائد کا ان ہی کی کتابوں سے مطالعہ کیا جائے تو روز روشن کی طرح بات عیاں اور واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، ان کا دین و مذہب ایک الگ اور خود ساختہ ہے، جو اسلام کے بالکل متوازی اور اسلام سے متصادم ہے، مگر آج تک عوام مسلمان اس فرقہ کو اسلام ہی کا ایک فرقہ سمجھتے ہیں، اور حنفی، مالکی، شافعی حنبلی کی طرح اسے بھی ایک مسلک سمجھتے ہیں، حالانکہ اس فرقہ کے عقائد و مسلمات کو پڑھ کر اس خیال کی تردید ہوتی ہے، بات یہ ہے کہ اس فرقہ نے ہر دور میں تقیہ کا سہارا لیا اور ہمیشہ اس کے فتنے ان کا الحاد و زندقہ اور اس کے کفریات تقیہ کی سیاہ چادر میں چھپے رہے۔ 

تنبيہ:

تقیہ ان کے دین کا جزء ہے، تقیہ کا معنیٰ ہے جھوٹ بولنا، نفاق سے کام لینا کسی کو دھوکہ دینا وغیرہ۔ ان کے مذہب میں تقیہ جائز ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ثواب ہے، جو آدمی نفاق سے کام نہیں لیتا وہ بے دین ہے، اصول کافی کی روایت ہے لا ديمن لمن لا تقية اور ایک روایت میں ہے لا ایمان لمن لا تقية له یعنی جو شخص لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتا وہ بے دین اور بے ایمان ہے۔ ان کے کفریہ عقائد کی تفصیل کا اس وقت موقع نہیں، البتہ چند اصول حسب ذیل ہیں۔

(1) نظریۀ امامت:

شیعہ مذہب کی اصل الاصول بنیاد عقیدہ امامت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ کی جانب سے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا جاتا ہے، اسی طرح حضور اکرمﷺ کے بعد اماموں کو بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے مبعوث کیا جائے گا، وہ امام شیعہ عقیدہ میں نبی کی طرح ہر غلطی سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں، ان پر وحی نازل ہوتی ہے، ان کی اطاعت ہر بات میں نبی کی طرح فرض ہے، وہ نبی کی طرح احکام شریعت نافذ کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قرآن کے جس حکم کو چاہیں منسوخ یا معطل بھی کر سکتے ہیں، گویا اسلامی عقیدہ میں جو مفہوم جو حیثیت اور جو مرتبہ ایک مستقل صاحب شریعت نبی کا ہے، ٹھیک وہی مفہوم، وہی حیثیت اور وہی مرتبہ شیعوں کے نزدیک امام معصوم کا ہے۔

(2) بُغض صحابه كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

 شیعوں کا دوسرا سب سے بڑا اصول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض وعداوت ہے۔ شیعوں کے نزدیک حضور اکرمﷺ کے بعد جنہوں نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی وہ (نعوذ باللہ) اس فعل کی وجہ سے سب کے سب کافر اور مرتد ہو گئے تھے، کیونکہ انہوں نے امام معصوم یعنی سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، ان میں بھی حضرات شیخین (سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ) کے بارے میں تو ان کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کافر و منافق تھے بلکہ اگلی اُمتوں اور اس اُمت کے خبیث ترین کافروں، فرعون، ہامان، نمرود، ابولہب، ابوجہل سے بھی حتٰی کہ شیطان مردود سے بھی بدتر درجہ کے کافر تھے، اور جہنم میں سب سے زیادہ عذاب ان ہی دونوں پر ہے (نعوذ بالله)۔ اور یہ کہ ان دونوں کی بیٹیاں(حضور اکرمﷺ کی پاک بیویاں سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور سیدہ حفصہؓ) بھی (نعوذ بالله) منافقہ و کافرہ تھیں، اور اپنے باپ (سیدنا صدیقِ اکبرؓ و سیدنا فاروقِ اعظمؓ) کے کہنے سے ان دونوں نے حضور اکرمﷺ کو زہر دے کر شہید کر دیا استغفر الله، ثم استغفر الله و العياذ بالله

(3) تحریفِ قرآن

شیعوں کا تیسرا عقیدہ، اول الذکر دونوں عقیدوں سے بدتر مگر دو اور دو چار کی طرح اول الذکر دونوں عقیدوں کا لازمی نتیجہ ہے، اور وہ ہے تحریف قرآن۔ 

مسلمان تو مسلمان آج تک کسی بد سے بدتر کافر کو بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کریم کے نام سے جو مقدس کتاب محفوظ چلی آتی ہے، اور جس کے ہر زمانہ میں ہزاروں نہیں، لاکھوں حافظ موجود رہے ہیں، وہ ٹھیک وہی کتاب نہیں جو مسلمانوں کو حضور اکرمﷺ نے دی تھی لیکن لعنت ہے شیعہ مذہب کے موجدوں کو، انہوں نے یہ عقیدہ بھی شیعوں سے منوا لیا۔ شیعہ مذہب کہتا ہے کہ قرآن کریم موجودہ شکل میں جو مسلمانوں کے پاس ہے یہ وہ اصل قرآن کریم نہیں جو حضور اکرمﷺ کو دیا گیا تھا، بلکہ یہ صحیفہ عثمانی ہے۔ اصلی وہ بڑا قرآن کریم ہے جو بارہوں امام کے ساتھ کسی نا معلوم غار میں دفن ہے۔

میرے محترم قارئین کرام!

شیعوں کے ان کفریہ عقائد کی وجہ سے تمام علمائے اسلام نے ان کو کافر و مرتد قرار دیا ہے۔ ماضی قریب میں اس سلسلہ میں ایک تفصیلی فتویٰ ہند و پاک و بنگلہدیش کے علماء کے دستخط سے شائع بھی ہو چکا ہے۔ اور خود آپ کے استفتاء میں وڈا ملا کا سالِ گذشتہ محرم الحرام کا عمل بھی تحریر ہے، اور یہ ایسی معروف و مشہور بات ہے جس سے تمام اخبار بین حضرات بخوبی واقف ہیں۔

 اب ایسی شخصیت کی آمد پر ان کا استقبال اور اظہار مسرت کرنا، نیز ان کے مذہبی پروگراموں کے لئے جو ظاہر ہے کہ ان کے انہی باطل عقائد و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ امسال ان پروگراموں کا سلسلہ بمبئی سے سورت اس لئے منتقل کیا گیا ہے کہ گذشتہ سال کے واقعہ سے بمبئی کے مسلمان چونک گئے ہیں، اور امسال کے پروگراموں پر ان کا تعاقب کا قوی خدشہ تھا، اس لئے اس سے بچنے کیلئے بڑی ہوشیاری سے یہ لوگ اس سلسلہ کو سورت میں لے آئے ، تا کہ ان کی شرارتوں پر پردہ پڑا رہے۔ 

ایسے موقع پر اسلامی غیرت وحمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ سورت کے مسلمان اس سلسلہ کی سورت میں منتقلی پر ہی اپنے غم و غصہ اور ناراضگی کا اظہار کرتے، چہ جائیکہ اپنے اداروں کی عمارتوں کو کرایہ کے لالچ میں ان کے حوالہ کر رہے ہیں، اور لیڈر حضرات ووٹ کے لالچ میں اور اپنی لیڈری چمکانے کے لئے استقبال کر رہے ہیں۔ 

یہ یاد رہے کہ وڈا ملا کی سورت میں آمد کسی سیاسی پروگرام کے ماتحت نہیں تھی بلکہ خالص مذہبی پروگرام کی غرض سے تھی، اس لئے شرعی طور پر ان کے استقبال یا اس پروگرام میں کسی بھی نوع کا تعاون جائز نہیں ہے، باری تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:

 وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌  (سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 2) یعنی گناہ اور زیادتی (کی باتوں) میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو۔

تفسیر روح المعانی میں آیت کریمہ فلن اكون ظهير اللمجرمین کے تحت یہ حدیث شریف نقل کی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا قیامت کے دن آواز دی جائے گی کہ کہاں ہیں ظالم لوگ اور ان کے مددگار؟ یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے ظالموں کے دوات قلم درست کیا، وہ بھی سب ایک لوہے کے تابوت میں جمع کرکے جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ 

یہ یاد رہے کہ قرآن وحدیث کی اصطلاح میں ظلم کا اطلاق تمام گناہوں پر ہوتا ہے، حدیث پاک میں نبی کریمﷺ‎ کا ارشاد ہے من وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الاسلام یعنی جس نے کسی صاحب بدعت کی توقیر وتعظیم کی، اس نے (گویا تمام اہل) اسلام کے نیست و نابود کرنے پر تعاون کیا، آج کل استقبال، تعظیم و توقیر کی غرض سے ہی کیا جاتا ہے۔

دور حاضر میں ایران کی شیعی حکومت کے باطل پروپیگنڈہ نے مسلمان نوجوانوں کے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے، ایسے وقت میں ان لوگوں کے ساتھ اس طرح کا تعاون اور رابطہ عوام مسلمین کے دین و ایمان کے لئے مہلک ہے، شیعوں کے یہاں محرم الحرام کی مجالس ان کا مذہبی شعار سمجھی جاتی ہے جن میں وہ گوناگوں خرافات کے مرتکب ہوتے ہیں ، ان کے اس مذہبی شعار کی ادائیگی کےلئے مکان مہیا کرنا کس قدر خطرناک ہے ؟ اس کا انداز و ہر باحمیت و باغیرت مسلمان بہ آسانی لگا سکتا ہے؟ خصوصاً ادارہ کا یہ مکان اگر مخصوص کام کے لئے وقف ہو تو وقف کرنے والے کے مقرر کردہ شرائط کے خلاف اس کو استعمال کرنا، یعنی کرایہ پر دینا تو عام حالات میں بھی درست اور جائز نہیں ہے۔ 

آیت کریمہ: وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ‏ ۞ (سورۃ ھود: آیت نمبر، 113) کی تفسیر میں حضرت ابنِ جریرؒ نے فرمایا ہے کہ ظالموں کی طرف کسی طرح کا بھی میلان نہ رکھو۔ حضرت ابو العالیہؒ نے فرمایا کہ ان کے اعمال وافعال کو پسند نہ کرو۔ حضرت جابر بن زیدؒ فرماتے ہیں کہ رکون

جو آیت میں مذکور ہے کا مطلب ہے مداہنت پرتنا، یعنی ان کے کفریات پر انکار نہ کرنا۔

آگے تفسیر فرماتے ہوئے علامہ قرطبیؒ رقمطراز ہیں وانها دالة علی هجران اهل المكفر والمعاصى من اهل البدع و غيرهم یعنی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ کفر اور اہلِ معصیت اور اہلِ بدعت کی صحبت سے اجتناب اور پرہیز واجب ہے (بجز اس کے کہ کسی مجبوری سے ان سے ملنا پڑے)۔

مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آباد تھے، ان میں سے ایک بنو قینقاع تھا، ان کے ساتھ حضور اکرمﷺ کا معاہدہ تھا کہ ہم آپس میں جنگ نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد بھی نہیں کریں گے۔ اُن لوگوں نے بعد میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی، اور اس کو توڑ دیا، اُس وقت حضرت عبادہ بن صامتؓ نے (جن کے ان کے ساتھ تعلقات تھے) ان کی اس شرارت کو دیکھ کر ان کے ساتھ جو تعلقات تھے تمام یکسر ختم فرما کر ان سے بیزاری کا اعلان فرمایا۔ اس وقت قرآن کریم کی آیت يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ‌ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 51) نازل ہوئی۔ 

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اس واقعہ سے استنباط فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس حدیث شریف سے ظاہر ہے کہ ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ جل شانہ اور رسولﷺ اور عباد مؤمنین کی محبت ضروری ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں سے عداوت و نفرت بیزاری اور برأت کا اعلان بھی ضروری ہے۔

شیعوں کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور عداوت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے حقیقی خیر خواہ نہیں ہو سکتے، بلکہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بےوقوف بنا کر انہیں نقصان پہنچائیں، اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں، ان کی آرزو یہ ہے کہ مسلمان تکلیف میں رہیں، اور کسی نہ کسی تدبیر سے انہیں دینی یا دنیوی نقصان پہنچے۔ جو دشمنی یا ضرر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت زیادہ ہے، لیکن بسا اوقات عداوت و غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا بھی ایسی باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا پتہ دیتی ہے۔ ارشاد ربانی ہیں لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِم وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 118) الخ کے مصداق ہیں۔ 

(محمود الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 333)