Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تاریخ ابو الفداء مصنفہ ملک حماد الدین

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

تاریخ ابو الفداء مصنفہ ملک حماد الدین:

 ملک مؤید ابو الفداء اسماعیل کی یہ تصنیف ہے اس میں بھی کئی ایک جگہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف گندی روایات اور نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔ یہ شخص کٹرشیعہ ہے۔ لیکن غلام حسین نجفی وغیرہ اسے سنی بنا کر اس کی عبارات سے استدلال کرتے ہیں نجفی کی تحریر ملاحظہ ہو۔

سیدنا عمرؓ کا دروازہ سیدہ فاطمہؓ پر آگ لے کر آنا اور ان کا گھرجلانے کی دھمکی دینا

تاريخ ابوالفداء:

ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ بَعَثَ عُمَرَ ابْنَ الخَطَابِؓ إِلى عَلي وَمَنْ مَعَهُ لِيَخْرُجَهُمْ مِنْ بَيْتِ فَاطِمَةًؓ وَقَالَ ان أبَوْا عَلَيْكَ فَقَاتِلُهُمْ فَأَقْبَلَ عُمَرُ بِشَيْ مِنْ نَارٍ عَلى أَنْ يَضرِمَ الدَّارَ فَلَقِيتُهُ فَاطِمَةُؓ وَ قَالَتْ إِلى أَيْنَ يَا بْنَ الْخَطَابِؓ أَجِئْتَ لِتُحرِقَ دارَنَا قَالَ نَعَمْ أَوْ تَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْأُمَّةُ

(اہلِ سنت کی معتبر کتاب تاریخ ابوالفداء جلد اول صفحہ 156 ذکر بیعت سیدنا ابي بكرؓ )

ترجمہ: 

پھر سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمر بن الخطابؓ کو سیدنا علیؓ اور ان کے ساتھیوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو سیدہ فاطمہؓ کے گھر سے نکالے اور کہا کہ اگر وہ تیری بات نہ مانیں تو ان سے لڑائی کر لہٰذا سیدنا عمؓر آگ لے کر چلا تاکہ سیدہ فاطمہؓ کے گھر کو جلا دے لہٰذا جب سیدہ فاطمہؓ کی سیدنا عمرؓ سے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا اے سیدنا عمرؓ تو کہاں جا رہا ہے کیا تو اس لیے جا رہا ہے کہ میرا گھر جلائے سیدنا عمرؓ نے کہا ہاں اس لیے جا رہا ہوں یا تو تم سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کر لو ورنہ میں

تمہارا گھر جلا دوں گا۔

(سهم مسموم صفحہ 69 مصنفہ غلام حسین نجفی مطبوعہ ماڈل ٹاؤن لاہور )

تاريخ ابو الفداء کی شیعہ نواز عبارتیں

جواب:

تاریخ ابو الفداء کے بارے میں اس سے چند عبارات ہم درج کر رہے ہیں تاکہ ان عبارات کے آئینہ میں اس کے مصنف کی اصلی شکل نظر آسکے پھر دوسرے طریقے یعنی کتب شیعہ سے کا سوانحی و مذہبی خاکہ پیش کیا جائے گا لیجئے چند عبارات ملاحظہ ہوں۔

عبارت اول:

قَالَ أَبُو الفِدَاءِ تُ فِي الْحَسَنُؓ مِنْ سَمِّ سَقتْهُ امْرَأَتُهُ جُعْدَة إلى أن قَالَ وَكَانَ قَدْ اوصی أنْ يُدْفَنَ عِنْدَ جدہ رَسُول اللهﷺ فَلَمَّا توفِي أَرَادُوا ذَالكَ وَكَانَ عَلَى الْمَدِينَةِ مروان ابن الحكم من قِبَلِ مُعَاوِيَة فَمَنَعَ مِنْ ذالِكَ وَ كَانَ يَقَعُ بَيْنَ بَنِي أُمَيَّةِ وَ بَنِی هَاشِمٍ بِسَبَبِ ذَالِكَ فِتْنَةٌ فَقَالَتْ عائشَةُؓ الْبَيْتُ بَيْتِي وَلَا أَذَنْ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ فدْفِنَ بِالْبَقِيعِ .

 (تاريخ ابوالفداء بحواله تاریخ احمدی صفحہ 213 مطبوعہ نیو گارڈن لاهور)

 ترجمہ

 ابو الفداء کہتا ہے سیدنا حسنؓ کا انتقال اس زہر کی وجہ سے ہوا جو ان کی بیوی جعدہ نے دیا تھا اور یہ بھی کہا سیدنا حسنؓ نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی میت حضورﷺ کے پاس دفن کی جائے جب ان کا انتقال ہوا اور لوگوں نے وصیت پوری کرنے کا ارادہ کیا ان دنوں مدینہ کا گورنر مروان بن حکم تھا جو سیدنا امیر معاویہؓ کی طرف سے مقرر تھا اس نے اس وصیت پر عمل کرنے سے روک دیا اسی وجہ سے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان فتنہ اٹھ کھڑا ہوا سیدہ عائشہؓ نے فرمایا گھر میرا گھر ہے لہٰذا میں سیدنا حسنؓ کو یہاں دفن ہونے کی اجازت نہیں دیتی پھر بقیع میں آپؓ کو دفن کیا گیا

عبارت دوم

قال ابو الفداء وَ لَما بَلَغَ مُعَاوِيَة مَوْتُ الحَسَنِ ابْنِ عَلِیؓ خَرَ سَاجِدًا لِلَّهِ

(تاريخ ابو الفدا بحواله تاریخ احمدی صفحہ 148)

ترجمہ:

ابوا الفداء کہتا ہے جب سیدنا امیر معاویہؓ کو سیدنا حسنؓ کے انتقال کی خبر پہنچی تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر گئے۔

عبارت سوم :

قال ابو الفداء ثُمَّ دَخَلَتْ سَنَهُ ثَلَاثِينَ فِيهَا تَكَلمَ جَمَاعَةٌ مِّنَ الْكُوفَةِ فِي حَقَّ عُثْمَانَؓ بِأَنَّهُ وَلى جَمَاعَةً مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ لَا يَصْلُحُونَ للَولايَةِ فَكَتَبَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ وَالِي الْكُوفَةِ مِنْ قِبَلِ عُثْمَانَ عَلَيْهِ بذالِكَ بِذَالك فَأَمَرَهُ عثمانُؓ بِسَيرِ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا بِذَالِكَ إِلَى مُعَاوِيَةَؓ بِالشَّامِ فَأَرْسَلَهُمُ وَفيهِمُ الْحَارِثُ بْنُ مَالِكِ الْمَعْرُوفُ بِالاشْتَرِالنخعي و ثابت بن قيس الخعي وجميل ابن زیاد و زید ابن صوحان العبدي واخوہ صعصعه وجندب ابن زهير وعروة ابن الجعد و عمر و بن الحمق فَقَدِمُوا على معاویۃؓ و جَرى بَيْنَهُمْ كَلامٌ كَثِيرٌ فَوَثَبُوا وَأَخَذُوا بلِحِية مُعَاوِيَةؓ فَكَتَبَ بِذَالِكَ إلى عثمانؓ فَكَتَبَ إِلَيْه عثمانؓ أَن تَرَدَّهُمْ إلى سعيد بن العاصؓ فَرَدَّهُمُ إلى سعيد فاتلقوا السْنتَهم فِي عُثْمَانَؓ وَاجْتَمَعَ إِلَيْهِم أَهْلُ الْكُوفَةِ  

(تاريخ البو الفداء بحواله تاریخ احمدی صفحہ 148)

ترجمہ:

ابو الفداء کہتا ہے کہ 33ھ اہلِ کوفہ کو سیدنا عثمانؓ کے بارے میں چہ میگوئیوں کا موقعہ ملا وہ بھی اس بات پر کہ انہوں نے اپنےکچھ رشتہ داروں کو امور مملکت سپرد کر دیئے حالانکہ وہ اس کے اہل نہ تھے سیدنا عثمانؓ نے سعید بن العاص والی کوفہ کو لکھا کہ ان نکتہ چینی کرنے والوں کو سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس شام بھیج دیا جائے چنانچہ انہیں وہاں بھیج دیا گیا ان لوگوں میں حارث بن مالک المعروف اشترنخعی جمیل ابن زیاد زید ابن صوحان العبدی ان کے بھائی صعصعہ، جندب ابن زہیر عروہ ابن جعد اور عمرو بن حمق تھے جب یہ لوگ سیدنا معاویہؓ کے ہاں پہنچے اور ان کے مابین گفتگو بڑھی تو ان لوگوں نے خوش میں آکر بھی کر سیدنا معاویہؓ کی داڑھی پکڑ لی سیدنا معاویہؓ نے یہ سارا واقعہ سیدنا عثمانؓ کو لکھ بھیجا جوابا سیدنا عثمانؓ نے لکھا کہ ان لوگوں کو سعید بن عاص کے ہمراہ واپس بھیج دو چنانچہ وہ سیدنا سعید بن عاصؓ کے پاس آگئے یہاں پہنچ کر انہوں نے سیدنا عثمانؓ کے بارے میں اور تیز زبانی شروع کر دی اور پھر کوفہ کے بہت سے لوگ ان کے ساتھ جمع ہو گئے ۔

عبارت چہارم:

 وَقَالَ ابو الفداء و ممانعتم الناس عَلَيْهُ رَدُّه الحکم بن العاص طرِيد رَسُول اللهﷺ وطريد ابوبكرؓ وعمرؓ أيضًا واعطاه مروان بن الحكم خَمْسَ غَنائم افريقيه وَ هُوَ خَمْسٌ مِائَةِ الْفِ دِينَارٍ إِلَى أَنْ قَالَ وَاقْطَعَ مَروان بن الحكم فدك

(تاريخ ابوالفداء بحواله تاريخ احمدی صفحہ 149)

ترجمہ:

ابو الفداء کہتا ہے سیدنا عثمانؓ کے خلاف جس بات سے لوگ برانگیختہ ہوئے ایک یہ بھی تھی کہ انہوں نے حکم بن عاص کو واپس بلا لیا جنہیں رسولﷺ نے باہر نکال دیا تھا پھر سیدنا ابوبکرؓ نے نکالا اور پھر سیدنا عمرؓ نے بھی نکالا اور مروان بن حکم کو افریقی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ دیا جو پانچ لاکھ دینار بنتا تھا اور یہ بھی ابو الفداء نے کہا کہ سیدنا عثمانؓ نے مروان بن حکم کو فدک بھی دے دیا تھا۔

عبارت پنجم:

قال ابو الفداء ابن شحنه اروى بنت الحارث بن عبد المطلب بن هاشم دَخَلَتْ عَلَى مُعَاوِيَةؓ وھی عَجُوز كَبِيرَةٌ فَقَالَ مُعَاوِيَةٌ مَرْحَبًا بِكِ يَا خَالَةُ كَيْفَ أَنْتِ فَقَالَتْ بِخَيْرٍ يَا ابْنَ اخْتِى لَقَدْ كَفَرْتَ النِّعْمَةَ وَأَسَأْتَ لِابْنِ عَمكَ الصُّحْبَةَ وَقَسَمْتَ بِغَيْرِ اسْمِكَ وَأَخَذْتَ غَيْرَ حَقِّكَ وَكُنَّا أَهْلَ بَيْتِ أَعْظَمَ النَّاسِ فِي هَذَا الدِّينِ بَلاءحَتَّى قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ مَشْكُورًا سَعْيَةً مَرْفُوعًا مَنْزِلَةً وَ ثَبَتَ عَلَيْنَا بَعْدَهُ الخ

( تاریخ احمدی صفحہ 218)

ترجمہ

 تاریخ ابوالفداء شحنہ میں ہے کہ اروی بن الحارث بن عبد المطلب بہت بڑھیا تھیں تو ایک مرتبہ سیدنا امیر معاویہؓ کے ہاں گئیں سیدنا معاویہؓ نے دیکھ کر کہا خوش آمدید خالہ جان! آپ کیسی ہیں۔ کہنے لگیں، بھانجے اللہ کی خیر ہے تو نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنے بھتیجے کے ساتھ برا سلوک کیا اپنے لیے وہ لقب اختیار کیا جس کا تو مستحق نہ تھا ہم اس دین میں تمام لوگوں سے زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا اورتم لوگ ہم پر حاکم بن بیٹھے حالانکہ ہمارا مرتبہ تم سب میں ایسا تھا جیسا کہ بنی اسرائیل کا مرتبہ آل فرعون میں تھا اور حضورﷺ کے ساتھ سیدنا علیؓ کی وہ منزلت تھی جو موسیٰؑ کے ساتھ ہارونؑ کی تھی یہ سن کر عمرو بِن العاص نے کہا بڑھیا! خاموش ہوجا تیری عقل جواب دے گئی اور بے ہودہ گوئی پر اتر آئی ہے اروی نے جواباً کہا اے باغیہ کے بیٹے! تو مجھ سے گفتگو کی جرات کر رہا ہے اپنی حقیقت تجھے یاد نہیں تیری ماں مکہ میں بدکارہ تھی اور معمولی معاوضہ پر اپنی عصمت لوٹاتی تھی چنانچہ تجھ پر پانچ مردوں نے اپنا بیٹا ہونے کا دعوای کیا بالآخر تیری ماں سے پوچھا گیا تو اس نے پانچ آدمیوں کے ساتھ تعلق کی تصدیق کی اس لیے ان میں سے جس کی شکل و صورت سے اس بچے کی شکل و صورت ملے۔ اسی کا سمجھو تو عاص بِن وائل کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے تم اس کے بیٹے قرار پائے اروی کی یہ باتیں سن کر سیدنا معاویہؓ نے کہا پچھلی باتوں کا تذکرہ نہ کرو اللہ نے اُسے معاف کر دیا۔

(تاریخ احمدی صفحہ 318 تا 319 مصنف خان بہادر نواب احمد حسین مطبوعه نیوگارڈن لاہور)

لمحہ فكريہ:

 تاریخ ابوالفداء کے چند اِقتباسات ہم نے ذکر کیے انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض کی جس بے ہودگی سے تصویر پیش کی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ تاریخ ابو الفداء کا مصنف گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہونے کی وجہ سے کٹر شیہ ہے ہم نے ان عبارات کا تفصیلی جواب تحفہ جعفریہ جلد چہارم میں لکھ دیا ہے اب آئیے دوسری طرف کہ شیعہ محققین اس کے مذاہب کے بارے میں کیا کہتے ہیں الذریعہ کی عبارت ملاحظہ ہو۔

الذريعة:

الملك المريد عماد الدين اسماعيل بن الافضل نور الدين على بن الملك المظفر محمود بن الملك المنصور محمد بن المظفر تقى الدين ابي الخطاب عمر بن شهنشاه الايوبي الملك العَالِمُ الْمُورِخُ الفلسفي الجغرافي مجالس العلماء وَمُرَتِّبِهُمُ وَصَاحِبُ (حماہ وَ مَلِكُهَا مُسْتَقِلا ولد سن 672 وَ مَاتَ بِحَماهُ سَن 632 وَلَہ تَقوِيم الْبُلْدَان الْمَطْبُوعِ كَمَا طَبَعَ تَارِيخَهُ الْمُرَتَبَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَجزاء فِي مُجَلدَيْنِ مُكَرَّرًا وَهُوَ إِنْ عُدَّ مِنَ الشَّافِعِيهِ لكِن فِي مَوَاضِعَ مِن تَارِيخِهِ عِنْدَ ذِكْرِ امير المُؤْمِنين عليه السلام وذكر و الده ابي طَالِبٍ وَغَيْرِهما يَظْهرُ مِنْهُ آثار التشيع وَقَدْ مرفِي 

(جلد 2 صفحہ 340) 

آنه أَخْرَجَ فِي كِتَابِ إِمَامَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنين عليه السلام عَنْ تَارِيخ المويدِ هَذَا جُمْلَةٌ وَافِرَةٌ مِنْ مَنَاقِبهِ عَلَيْهِ السلام في الغزوات غَزْوَةُ فَرَاجِعُهُ

(الذريعه جلد سوم صفحہ 227)

ترجمہ

ملک حماد الدین سن 672 میں پیدا ہوا اور سال 732 میں مقام حماہ میں اس کا انتقال ہوا تقویم البلدان اس کی ایک تصنیف ہے اسے اگرچہ شافعی المسلک کہا گیا ہے لیکن اپنی تاریخ میں بہت سے مقامات پر اس نے جس انداز سے سیدنا علی المرتضیٰؓ اور ان کے والد ابو طالب کا تذکرہ کیا اس سے اس کا شیعہ ہونا ظاہر ہوتا ہے اور امامت امیرالمؤمنین جو حسن بن نوع شیعی کی مشہور تصنیف ہے۔ اس نے تاریخ ابوالفداء سے ہی سیدنا علی المرتضیٰؓ کے غزوات کے بارے میں مناقب لکھے ہیں ۔

لمحہ فكريہ

ابو الفداء کے بارے میں خود اس کی تحریرات اور پھر محقق شیعہ علماء کی تعریفات اس کی تائید کرتی ہیں کہ یہ شخص شیعہ تھا۔ اگر اس میں شیعیت نہ ہوتی تو صاحبِ الذریعہ اس کو ہرگز اپنی کتاب میں جگہ نہ دیتا جگہ دینے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کے شیعہ ہونے کی دلیل بھی پیش کر دی ان تصریحات کے ہوتے ہوئے نجفی وغیرہ کا اسے سنی اور اس کی کتاب کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب لکھنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے ایسے علماء جو متنازعہ فیہ ہوں کچھ انہیں سنی کہیں اور کچھ انہیں شیعہ ایسے ہی لوگوں کی پہچان کے لیے تو الذریعہ تصنیف ہوئی تا کہ کم ازکم وہ اپنوں کی نشاندہی تو کر دیں کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ کون سا ہمارا تھا جو تقیہ کر کے سنی بنارہا وہ اس کے مرنے کے بعد اس کی تقیہ والی چادر ہٹا کر رونمائی کر دیتے ہیں لیکن ہم اہلِ سنت کے ہاں تقیہ ، منافقت کا نام ہے اس لیے اس کی ہرگز اجازت نہیں اس لیے اگر کسی نے اپنے آپ کو سنی کہلایا تو ظاہر اسے سنی ہی کہنا پڑا لیکن جب اس کے ہم خیالوں نے لکھا کہ وہ تقیہ کے طور پر سنی تھا۔ تو ہمارے خلاف اس کی عبارات کیونکر حجت تسلیم ہوں گی اس لیے تاریخ ابوالفداء کی کوئی عبارت ہمارے خلاف حجت ہرگز ہرگز نہیں بن سکتی ۔

فاعتبروا يا اولى الابصار