Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صفوة الصفوة مصنفة سعد ابن على الحضرمی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

صفوة الصفوة مصنفة سعد ابنِ على الحضرمی

گذشتہ کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اعتراضات اور ان کی تنقیص شان کے مواد سے بھری پڑی ہے ۔ اسے اہلِ سنت کی کتاب کے عنوان سے پیش کر کے سیدنا فاروق اعظمؓ کی شان میں ایک ناپاک عبارت لکھتے ہوئے غلام حسین نجفی نے یوں لکھا۔

 سہم مسموم

 سیدنا عمرؓ اور ولید بن مغیرہ کا نسب پیغمبر کی نگاہوں میں ایک جیسا تھا۔

 ثبوت ملاحظہ ہو

اہلِ سنت کی معتبر کتاب صفوة الصفوة جلد اول صفحہ 103

ذکر عمر صفوة الصفوة کی عبارت ملاحظہ ہو 

 فقام رَسُولُ اللهِ حَتَّى اتی عُمَرُ فَأَخَذَ بِمَجَامِعِ ثَوْبِهِ وَحَمَائِلَ السَّيْف فَقَالَ مَا أَنْتَ مُنْتَهِيَا يَا عُمَرُؓ حَتَّى يُنَزِّلُ اللهُ يَعْنِي بِكَ مِنَ الْخِزْيِ وَالنِّقَالِ مَا نَزَلَ بِالْوَلِيدِ بن مغيره

 *ترجمہ* (جب سیدنا عمرؓ تلوار لے کر رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے۔ اور نبی کریمﷺ کو اطلاع ملی تھی)، پس حضورﷺ اٹھے حتی کہ گریبان عمرؓ اور نیام عمرؓ سے پکڑ کر فرمایا کہ تو باز آئے گا۔ اے عمرؓ حتی کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں اس رسوائی والی بات کی خبر دے ۔ جو ولید بن مغیرہ کے متعلق دی ہے۔

(سہم مسموم صفحہ 224 مطبوعہ لاہور)

 جواب:

اس امر سے ہر شخص واقف ہے۔ کہ شیعہ مسلک میں سیدنا فاروق اعظمؓ کی ذات پر تیرا بازی ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ اس سلسلہ میں جب کسی شیعہ کو کسی کتاب سے تھوڑی سی عبارت ملتی ہے۔ تو فورا اُسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے ۔ اس ڈگر پر چلتے ہوئے سہم مسموم میں غلام حسین نجفی نے سیدنا فاروق اعظمؓ کی ذات پر صفوة الصفوة کے حوالہ سے الزام دھرا۔ یہ کتاب کس مسلک کے مصنف کی ہے ؟ خود شیعہ مححق سے سینیئے۔

 صاحب صفوة الصفوة امامی شیعہ اور علامہ حلی شیعہ کا شاگرد ہے

 شیعہ علماء کا بیان

 الذريعة الى تصانيف الشيعه

 صِفْوَةُ الصَّفْوَةِ لِلْعَارِي فِي شَرْحِ صَفْوَةِ الْمَعَارِف الَّتِي فِي مَنْظُومَةً فِي الْهَيْئَةِ مِنْ نَظم سَعْدِ بْنِ عَلى الحضرمي لا بن العتايقي الشيخ كمال الدين عبد الرحمن بن محمد بن ابراهيم ابن العتايقي الحلى شارح نهج البلاغة، ومعاصر الشَّهِيدِ الأَوَّلِ وَفِي طَبقَةِ جملة من تَلامَدَةِ الْعَلَامَةِ الْحَلِي قَالَ في الرياض ، رَأَيْتُ خَطهُ بِالتَّاريخ على شرح نهجةً وَكَانَ تَارِيخة 786 ۔ الذريعة الى تصانيف الشيعه جلد 15 صفحہ51 تذکرہ ص ف ی مطبؤعہ بیروت طبع جدید 

 ترجمہ

 صفوة المعارف کہ جسے سعد بن علی الحضرمی نے علم ہیئت میں لکھا۔ اس کی شرح کا نام صفوة الصفوۃ ہے ۔یہ شرح ابن عتایقی شیخ کمال الدین عبد الرحمن بن محمد شارح نہج البلاغہ کی تصنیف ہے۔ اور اس کا مصنف شہید اول کا ہم عصر تھا۔ اور علامہ الحلی کے شاگردوں میں سے تھا۔ صاحب الریاض نے کہا۔ کہ میں نے شرح نہج البلاغہ پر اس کے دستخط دیکھے جس کی تاریخ 786 تھی۔

 الكنى والالقاب 

(ابن العتايقي) كمال الدين عبد الرحمن بن محمد بن ابراهيم بن العتايقي الحلى الامامي الشيخ العالم الفاضل المحقق الفقيه المبتحري كان من علماء المابة الثَّامِنَةِ مُعَاصِرََا للشَّيْخ الشَّهِيدِ وَبَعْضِ تَلَامَذتہ العلامة رحمهم الله تَعَالَى لَهُ مُصَنَّفَاتٌ كَثِيرَةً فِي الْعُلومِ رَأَيْتُ جَمَلَة مِنْهَا فِي الْخَزَانَةِ الْمُبَارَكَةِ الْغرُوِيَة وَلَعَلَّ بَعْضَهَا كَانَتْ بخطه - وَلَهُ شَرح على نهج البلاغة قال (ض) و له ميل إلى الحكمة وَالتَّصُوف لَكِنْ قَدْ أَخَذَ أَصْلَ شَرْحِهِ مِنْ شَرْحِ ابْنِ مَيْثم وكانَ تَارِيحُ فَرَاغِهِ مِنْ تَصْنِيفِ الْمُجَلَّدِ الثَّالِثَ مِن شرحه علَى النَّهج فِي شَعْبَانَ سَنَةً 780- 

(الكنى والالقاب جلد اول صفحہ 354 تذکرہ ابن العتایقی مطبوعہ طہران طبع جدید)

 ترجمہ

 ابنِ العتایقي کمال الدین عبد الرحمن بن محمد بن ابراهیم بن عتایقی الحلی الامامی بہت بڑا شیخ، عالم، فاضل محقق، فقیہ اور آٹھویں صدی کے علماء میں سے تھا۔ شیخ شہید اول کا ہم عصر اور علامہ کے شاگردوں میں سے تھا۔ اس کی کئی علوم میں تصانیف ہیں۔ میں نے ان میں سے بعض تصانیف عزویہ کے خزانہ مبارکہ میں دیکھیں۔ اور ان میں سے بعض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ وہ ابن عتایقی کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تھیں اسی مصنف کی ایک شرح نہج البلاغہ بھی ہے۔ اگرچہ یہ تصوف و حکمت کی طرف مائل تھا۔ لیکن نہج البلاغہ کی شرح کرتے وقت ابن میثم کی شرح اس کے پیش نظر تھی ۔ اور اس کے مواد اکٹھا کر کے شرح لکھی۔ اس کی شرح تیسری جلد سے شعبان 780ھ میں یہ فارغ ہوا۔

 لمحہ فکریہ

 ناظرین کرام یہ حقیقت ہے کہ جب کسی کتاب کے مصنف کے بارے میں اہلِ تشیع میں اختلاف ہو۔ اور اس کا مذہب معلوم نہ ہو سکتا ہو تو اس کا فیصلہ " الذریعہ الی تصانیف الشیعہ سے کیا جاتا ہے ۔ جس کتاب اور مصنف کا تذکرہ اس میں مل جائے ۔ وہ پکا شیعہ ہے ۔ اسی طرح کتاب الکنی والالقاب جو اہلِ تشیع کے ہاں محقق شہید اور مؤرخ الکبیر کی تصنیف ہے۔ اس محقق اور مؤرخ کا نام شیخ عباس قمی ہے ۔ یہ بھی کسی شخص کے مذہب کے بارے میں فیصلہ کن کتاب سمجھی جاتی ہے

ان دونوں کتابوں میں "صاحب صفوة الصفوة" کے شیعہ ہونے کی تصدیق کی گئی ۔ اس کے ہوتے ہوئے پھر ابن عتایقی کی کتاب صفوة الصفوة کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب، کہنا بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے ؟ لیکن غلام حسین نجفی وغیرہ نے سیدنا فاروق اعظمؓ پر الزام دھرنے کے لیے اس بے چارے کو بھی سنیوں میں لاکھڑا کیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی اس کے *تقیہ* کا ایک انداز ہو۔ جب ان کے مذہب میں تقیہ کے رنگ میں سیدنا علی المرتضیؓ کو گالی تک نکالنا باعث نجات ہے 

(نہج البلاغہ خطبہ 57 صفحہ 92) 

تو پھر ایک امامی، ماتمی، اور گستاخ صحابہؓ کو اگر تقیہ کے طور پر سنی کہہ دیا۔ تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ 

 (فاعتبروا يا اولى الابصار)