Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو آگ نہیں جلاتی۔ (تحقیق)

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو آگ نہیں جلاتی۔ (تحقیق)

امام خطیب البغدادیؒ م463ھ نے فرمایا:
وأخبرنا الحسن، قال: حدثنا عبد الرحمٰن، قال: حدثنا أبو عمير الأنسی بمصر، قال: حدثنا دينار مولى أنسؓ، قال: صنع أنسؓ لأصحابه طعاما فلما طعموا، قال: يا جارية هاتی المنديل، فجاءت بمنديل درن، فقال اسجری التنور واطرحيه فيه، ففعلت فابيض، فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبیﷺ‎ وإن النار لا تحرق شيئا مسته أيدی الأنبياء۔
(كتاب تاريخ بغداد ت بشار: جلد، 11 صفحہ، 589)
ترجمہ: دینار مولی انسؓ بیان کرتا ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپؓ نے اپنی لونڈی کو آواز دے کر فرمایا رومال لے آؤ وہ جب رومال لائی تو وہ میلا تھا سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا تندور کو ہلکا کر کے اس رومال کو تندور میں ڈال دو جب رومال تندور سے باہر نکالا گیا تو وہ سفید ہو گیا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یہ کیسے تو سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا یہ نبی کریمﷺ‎ کا رومال ہے اور انبیاء علیہم السلام جس چیز کو چھو لیں آگ اسے نہیں جلاتی۔
یہ روایت موضوع ہے۔
1: أبو مكيس دينار بن عبد الله الحبشی متھم بالوضع راوی ہے اور اس پر خاص جرح یہ بھی ہے کہ اس نے سیدنا انس بن مالکؓ سے 100 کے قریب موضوع روایات بیان کیں لہٰذا اس کی سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت موضوع قرار دی جائے گی۔
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
وقال الحاكم: روى، عَن أَنسؓ قريباً من مِئَة حديث موضوعة۔
اس نے سیدنا انس بن مالکؓ سے تقریباً 100 موضوع روایات بیان کیں ہیں۔
امام ابنِ حبانؒ نے بھی امام حاکمؒ کی موافقت کی چنانچہ فرماتے ہیں:
قال ابنِ حبانؒ: يروی، عَن أَنسؓ أشياء موضوعة۔
یہ سیدنا انس بن مالکؓ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے۔
(لسان الميزان: صفحہ، 3077)
امام شمس الدین ذہبیؒ نے اندازاً فرمایا کہ:
أن يروي عنه عشرين ألفا كلها كذب۔
اس نے تقریباً بیس ہزار روایتیں بیان کیں جو سب کی سب جھوٹ ہیں۔
(ميزان الاعتدال: جلد، 2 صفحہ، 31 )
2: نیز سند میں "أبو عمير الأنسی" بھی مجہول ہے۔
امام احمد بن علی المقریزیؒ م845ھ نے حافظ ابونعیم اصفہانیؒ کے طریق سے اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا۔
فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالكؓ نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمی المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجرى التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج أبيض كأنه اللبن. فقلت: يا أبا حمزةؓ! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول اللهﷺ‎ يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء عليہم السلام۔
ترجمہ: عباد بن عبد الصمد کہتے ہیں کہ ہم سیدنا انس بن مالکؒ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ دسترخوان لے آؤ ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے چنانچہ وہ اسے لے کر آئی اور ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا پھر آپؓ نے فرمایا اے لونڈی رومال لے آؤ تو پھر وہ ایک گندا رومال لے کر آئی پھر آپؓ نے لونڈی سے کہا کہ تندور کو روشن کرو اسے روشن کیا گیا اور وہ رومال تندور میں ڈالنے کا حکم دیا وہ جیسے ہی تندور میں ڈالا گیا دودھ کی طرح سفید ہو گیا میں نے کہا: اے ابو حمزہؓ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہﷺ‎ اپنا چہرہِ انور پونچھتے تھے اور جب یہ میلا ہو جاتا تو ہم ایسا ہی کرتے کیونکہ آگ اس شئے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم السلام کے چہرہ مبارک پر سے گذری ہو۔
(كتاب إمتاع الأسماع: جلد، 11 صفحہ، 254 )
یہ بھی موضوع ہے۔
1:محمد بن رميح العامری مجہول ہے
2: عبد الله بن محمد بن المغيرة متہم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے۔
امام ابنِ عراق الکنانیؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سفیان ثوریؒ اور مالک بن مغول سے موضوع روایات بیان کرتا ہے۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 1 صفحہ، 75 )
امام عقیلیؒ فرماتے ہیں یہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی امام ابنِ یونسؒ نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا۔
(لسان الميزان: جلد، 3 صفحہ، 421)
امام شمس الدین ذہبیؒ نے اس کو متروک قرار دیا اور اس کی مرویات کو نقل کرکے انہیں موضوع قرار دیا
(كتاب تاريخ الإسلام تدمری: جلد، 14 صفحہ، 219)
(كتاب ميزان الاعتدال: جلد، 2 صفحہ، 487)
3: ابو معمر عباد بن عبد الصمد بھی متھم بالوضع راوی ہے۔
امام ابوحاتم رازیؒ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ سخت ضعیف راوی ہے امام ابنِ عدیؒ نے فرمایا کہ یہ غالی شیعہ ہے امام بخاریؒ نے اسکو منکر الحدیث قرار دیا۔
امام شمس الدین ذہبیؒ نے اس کو واہ قرار دیا اور یہ جرح متروک درجے کے راویان پر کی جاتی ہے نیز نقل کیا کہ عباد بن عبدالصمد نے سیدنا انس بن مالکؓ سے ایک پورا نسخہ روایت کیا جو کہ اکثر موضوع من گھڑت روایات پر مشتمل ہے۔
(كتاب ميزان الاعتدال: جلد، 2 صفحہ، 369)
(فتح المغيث للسخاوی: جلد، 2 صفحہ، 128)
واہ یہ جرح امام ذہبیؒ متہم متروک درجہ کے راویان پر کرتے ہیں مثال ملاحظہ ہو۔
1: عبد الله بن حكيم ابو بكر الداهری عن التابعين واه متهم بالوضع۔
2: عمر بن محمد بن أحمد بن مقبل عن المحاملی متهم واه۔
3: ابراهيم بن شكر العثمانی المصری متأخر روى عن علی بن محمد الحنائی متهم واه كذبه الكتانی
(كتاب المغنی فی الضعفاء رقم: ٬314 صفحہ، ٬4536 97)
اس مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ اثر اپنی دونوں اسناد کے ساتھ موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا جائز نہیں۔
اسی طرح ایک من گھڑت قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے روٹیاں لگائیں اور نبیﷺ‎ نے بھی ایک روٹی لگائی باقی روٹیاں پک گئیں لیکن نبیﷺ‎ نے جو روٹی لگائی وہ نہیں پکی وغیرہ وغیرہ اس قصہ کا وجود بھی کسی حدیث٬ تاریخ٬ سیرت کی معتبر کتاب میں نہیں اللہ جانے صاحب خطبات فقیر نے اس ہوا ہوائی قصہ کو اپنی خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92، 93 پر کہاں سے نقل کر لیا۔
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی:
مؤرخہ 15 ذوالحجہ 1443ھ