بعض صحابه رضی اللہ عنہم جادہ حق سے ہٹ کر ظلم و فسق کی حد تک پہنچ گئے۔
مولانا ابوالحسن ہزارویبعض صحابهؓ جادہ حق سے ہٹ کر ظلم و فسق کی حد تک پہنچ گئے۔
(المقاصد فی الکلام)
الجواب اہلسنّت
1۔ صاحبِ کتاب عبارت اور معترضین کے قول کو نقل کر کے جواب دینا چاہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جو کُچھ قابلِ اعتماد لوگوں نے بیان کیا ہے وہ بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ یہ لفظ صراحتاً رافضی شیعہ دجل کا شیرازہ فضاء میں بکھیر رہا ہے کہ: "یدل بظاهره۔" (عکسی صفحہ)
جِس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر یہ واقعات گُناہ اور فسق وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں مگر حقیقت حال وہ نہیں جو ظاہری مطلب سے جانی جا رہی ہے تو صاحبِ کتاب نے ان لوگوں کے اعتراض کی طرف اشارہ کیا جو بظابر ان واقعات کو دیکھ کر اعتراض داغ رہے تھے لہٰذا اس مقام پر صاحبِ کتاب نے وضاحت کی ہے اور معترضین کا جواب ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا اشکال ظاہری صورت کی بنا پر ہے جبکہ صحابه کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کا اللّٰه تعالٰی کے ساتھ معاملہ بالکل صاف اور واضح ہے اور قرآن کریم ان لوگوں کی خالص نیت کا خود اعلان فرما چکا ہے:
یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا (سورت الحشر آیت 8)۔
کہ "وہ اپنے رب کی رضا اور اس کا فضل چاہتے ہیں۔"
اب غور فرمایا جائے کہ جِس چیز کو اللّٰه تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی نیت اور دِل کی حالت اس پر حملہ آور ہونے والوں سے صاحبِ مقاصد اگر دفاع کر رہے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی عزت و توقیر کو دلیل سے واضح فرما رہے ہیں تو اس پر بھی کرم فرماؤں کو اعتراض ہے۔
2۔ اگر کوئی صاحب بضد ہو کہ نہیں جی صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کا آپس میں جمل و صفین وغیرہ میں لڑنا اگرچہ بظاہر سہی پر لڑائی تو ہے ناں پھر "بظاہر ہو یا بباطن" جیسے بھی ہو پر یہ تو معلوم ہو گیا کہ وہ جادہ حق سے ہٹ گئے تھے۔ تو ہم جوابًا عرض کرتے ہیں حضرت موسٰی علیہ السلام نے مکا مار کر قبطی کو قتل کر دیا تھا۔ یہ قتل نہ قصاصاً تھا نہ رجم تھا اور نہ ہی بوجہ ارتداد کے تھا تو اس کے بارے میں کیا کُچھ ارشاد فرمائیں گے ...؟؟ "ما هو جوابکم فهو جوابنا۔"
باقی رہا یہ مسئلہ کہ یہ بظاہر جرم کا کام ہو تو اسے جرم کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ تو ہماری گُزارش ہے کہ بہت دفعہ بعض کام ظاہری طور پر جرم نظر آتے ہیں مگر حقیقت اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے معصوم بچے کی گردن مروڑ دی۔ اچھی بھلی چلتی کشتی کے پھٹے توڑ دیے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام بول بھی پڑے مگر اللّٰه تعالٰی کی نظر میں یہ جرم نہ تھا۔ اللّٰه تعالٰی اپنے محبوبوں کو جو علم عطا فرماتا ہے۔ وہ اس کی روشنی میں اللّٰه تعالٰی ہی کی رضاء جوئی کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے جب نص قطعی سے صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی خالص نیتوں کی شہادت حاصل ہو گئی تو اب اس کے خلاف کُچھ لِکھنا محض اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔