بعض صحابه رضی اللہ عنہم حوض کوثر سے دھکیلے جائیں گے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، بدور المسافر، في امور الاخرہ، کتاب البدع والنہی عنہا) 2۔) بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مرتد ہو کر پچھلے پاؤں پھر گئے۔ (البدع والنہی عنہا مرویات الصحابہ، جامع ترمذی، البیان الاظہر)
مولانا ابوالحسن ہزاروی1۔) بعض صحابهؓ حوضِ کوثر سے دھکیلے جائیں گے۔
(بخاری، مسلم، ترمذی، بدور المسافر، في امور الاخرہ، کتاب البدع والنہی عنہا)
2۔) بعض صحابہؓ مرتد ہو کر پچھلے پاؤں پھر گئے۔
(البدع والنہی عنہا مرویات الصحابہ، جامع ترمذی، البیان الاظہر)
الجواب اہلسنّت
1۔ مہربانوں کو دھوکہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ آئے سہی وہ دھوکہ دیے بغیر آگے کو قدم سرکانا حرام جانتے ہیں۔ یہاں بھی وہی فراڈ اور دھوکہ جڑ دیا جو صحابی کے لفظ پر منافقین کے باب میں جڑ چُکے ہیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ صحابی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے ایمان کی حالت میں بیداری کے اندر آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور کُچھ صحبت حاصل ہوئی ہو اور ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں صحابی کی تعریف یہ ہے:
من يقيد، في حياتهٖ مؤمنا به وفات عليه
(نخبۃ الفکر لابن حجر عسقلانی)
کہ "جِس نے آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حیات میں ان پر ایمان لانے کی حالت میں ملاقات کی اور اسی (حالتِ ایمان) پر وفات پائی۔"
لہٰذا صحابی کی تعریف میں 3 امور شامل ہیں:
1_ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اِسلام قبول کیا۔
2_کُچھ دیر کے لیے صحبتِ نبوی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہوا۔
3_خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔
صحابہؓ کی یہ تعریف اسدالغابه، الاستیعاب، الاصابہ فی تمیز الصحابه، نخبة الفكر تدریب الراوی وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اب یہ تعریف پیش رکھ کر غور کر لیا جائے کہ جِن لوگوں کا خاتمہ ایمان پر ہی نہیں ہوا اسے صحابی قرار دینا کیسے درست ہوا ...؟؟
پس اگر ایمان کی حالت میں زیارت کی مگر خاتمہ ایمان پر نہ ہوا ہو تو اس کو صحابی نہیں کہتے۔
2۔ مذکورہ روایت کا تعلق بنو حنیفہ وغیرہ کے اُن لوگوں سے ہے جو بذریعہ ایلچی مسلمان تو ہوئے مگر آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے وفات پا جانے پر ارتداد کو اختیار کیا اور ایمان کا لباس اُتار پھینکا۔ ایسے لوگوں کو کوئی بھی صحابی نہیں کہتا مگر یہ فراڈ اور دھوکہ دینا کہ اس سے مراد فلاں فلاں صحابی ہیں اور نام لینا اُن بزرگانِ امت کا جو سابق الایمان شرکائے بدر وغیرہ ہیں، یہ پرلے درجہ کی تلبیس اور بدترین دھوکہ ہے، نہ یہ دین ہے اور نہ ہی مذہب۔ دُنیا کا ہر واقف احوال ماضیہ جانتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے ایسے لوگوں سے قتال کیا جو مرتد ہوئے یا انکارِ زکوٰة کا وطیرہ اختیار کیا لیکن ان احادیث کی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے درمیان جو رائے کا اختلاف ہوا اس کو نہ کِسی نے کفر قرار دیا اور نہ ہی کِسی نے اِسلام کی سرحد کراس کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔ لہٰذا ان احادیث کا صاف صاف مطلب وہی ہے جو اکابرینِ امت ارشاد فرما چُکے ہیں۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں، یہ حدیث صریح ناطق ہے کہ مراد ان شخصوں سے مرتد ہیں جو کفر پر مرے، کوئی اہلِ سنت ان کو صحابی نہیں کہتا اور نہ ان کی بزرگی اور خوبی کا عقیدہ رکھتا ہے اور اکثر بنی حنیفہ اور بنی تمیم جو ایلچی کے ذریعہ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے فیض یاب ہوئے اور پھر اس ارتداد کی مصیبت میں گرفتار ہو گئے اور گنہگار و زیاں کار ہو گئے۔ اہلِ سنت تو ان صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے الخ۔
(تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 700 اردو)
جِن صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے بارے میں ہم عرض کر چُکے ہیں کہ وہ ایمان پر ہی دُنیا سے تشریف لے گئے اُن کی تعریفیں قرآن کریم میں موجود ہیں اور احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ ان کی عظمت کا نشان بنا ہوا ہے۔ ارشاد ہے:
*وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ*
(سورۃ النور، آیت نمبر 55)
"کہ اللّٰه تعالٰی نے (اے صحابہ کرام) تُم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ جِس کا ایمان اور نیک عمل پسند آجائے گا تو وہ تُم کو زمین میں خلافت عطاء فرمائے گا جیسے کہ تُم سے پہلے ایمان لانے والوں کو عطاء فرمائی۔"
اسی طرح فرمایا:
رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ۔ الخ
(سورۃ التوبہ، آیت نمبر 100)
"اللّٰه تعالٰی ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللّٰه تعالٰی سے راضی ہو گئے اللّٰه تعالٰی نے ان کے لیے ایسے باغات تیار فرما رکھے ہیں جِن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ الخ۔ وغیرہ آیات میں ان حضرات کے ایمان کی واضح شہادات ہیں۔