Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہوں میں ہوس بس گئی ہے اور انہیں اپنی ذاتی مفاد عزیز ہے، نعوذ باللہ۔ (کتاب الخراج)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

صحابہؓ کی نگاہوں میں ہوس بس گئی ہے اور انہیں اپنی ذاتی مفاد عزیز ہے، نعوذ باللّٰہ۔ (کتاب الخراج) 

 الجواب اہلسنّت

جِس صفحہ کا عکس دے کر یہ افترا گھڑا گیا کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی نگاہوں میں ہوس بس گئی تھی العياذ باللّٰه ! اس صفحہ پر دراصل نصیحت اور اصلاحِ نفس کا ذکر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا گیا:

 *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی*

(سورۃ الاحزاب، آہت نمبر 69)

"اے ایمان والو ! تُم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے (حضرت) موسٰی کو تکلیف دی۔"

اور ایک جگہ فرمایا: 

"تُم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے۔"

یعنی عمل نہیں کرتے۔ اب بظاہر حضرت موسٰی علیہ السلام کو تکلیف دینے والے ان کی قوم کے تھے مگر وہ اُن کے حقیقی وارث نہ تھے اور قرآن کے وہ مخاطب جو کلام اللّٰه سُن کر کہتے تھے کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ سُنتے نہیں تھے۔ یہ بظاہر تو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے مگر وہ صحابی نہیں تھے بلکہ منافق اور زبانی جمع خرچ پر گُزارا کرنے والے لوگ تھے جِن کو صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی طرح ایمان لانے کو کہا جاتا تو وہ بدک پڑتے اور تبرا کرنے لگتے تھے جِس کی مختصر روئیداد سورۃ البقرہ کے دوسرے رکوع میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں پر سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے حضرت عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو نصیحت کی کہ تُم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جو زبانی دعویٰ تو صحابی ہونے کا کرتے تھے مگر ان کا حال احوال عجیب تھا۔ وہ مفاد کی جنگ میں کوشش کرتے تھے مگر ایمان کے لیے کوئی محنت نہیں کرتے۔ اِس مقام پر بیان کردہ چند قرینے اس بات کی صاف وضاحت کر رہے ہیں کہ یہاں پر لفظ صحابہ کا لفظ اپنے معروف اور اصلاحی مفہوم میں استعمال نہیں ہو رہا بلکہ محض لغوی معنٰی کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال ہو رہا ہے۔