Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کا قاتل ابو الہادیہ رضی اللہ عنہ اولین سابقین اور بیعتِ رضوان میں شامل صحابه رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے تھا

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

 حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا قاتل ابو الہادیہؓ اولین سابقین اور بیعتِ رضوان میں شامل صحابه رضوان اللّٰه علیھم اجمعین میں سے تھا

(منہاج السنۃ، لابن تیمیہ)

 الجواب اہلسنّت

 2- ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مذکورہ مقام پر من کنت مولاه الخ حدیث پر جرح کی، جِسے شیعہ کرم فرما خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اِس حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد دلائل و وجوہ ذکر کیے ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے مسندِ خلافت پر براجماں ہونے کے بعد باہمی جنگوں میں صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین 3 حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ 

 ایک گروہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گیا اور سب سے بڑی جماعت سابقین اولین کی اسی عمل پر تھی۔ 

 دوسری جماعت حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے ساتھ مِل کر شریکِ جنگ ہوئی 

اور تیسری جماعت قصاصِ عُثمان رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ مِل کر شریکِ جنگ ہوئی۔ 

ابن حزم کا قول ہے کہ حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو ابو الہادیہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے قتل کیا جو بدری صحابی اور شریکِ بیعتِ رضوان تھے۔ (عکسی صفحہ) اسی آخری جملے پر کرم فرماؤں نے اعتراض کی دکان سجائی ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ...

1) یہ ابن تیمیہ کا قول نہیں جو یہاں منقول ہے۔ 

2) یہ حدیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بھی نہیں ہے کہ قوت اعتماد میں اضافہ ہو سکے۔ 

3) یہ کسی صحابیؓ کا قول بھی نہیں ہے۔

4) یہ قول ایسے شاہد کا بھی نہیں جِس نے قتل ہوتے ہوئے حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو دیکھا ہو۔ 

5) اس قول کو صاحبِ کتاب نے بلا سند ذکر کیا ہے جو اس قول کی کمزوری پر دال ہے۔ 

6) حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو ابو الہادیہؓ نے قتل کیا۔ "یہ دعویٰ ہے" اور دعویٰ کا ثبوت بلا دلیل ہرگز نہیں ہوتا۔ اِسلام نے دعویٰ کے اثبات کے لیے شہادت و گواہی کا نصاب مقرر فرما کر اس کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں جو گواہی کی اہلیت رکھتے ہوں تو دعویٰ ثابت ہوتا ہے یہاں یہ دعویٰ اس لیے ثابت نہیں ہوتا کہ شہادت ادھوری ہے۔

7) جو ایک گواہ پیش کیا گیا ہے یا گواہ کا وکیل و نمائندہ کھڑا کیا گیا ہے اس نمائندہ کا بوقت واقعہ وہاں موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

8) ابن حزم جو یہ دعویٰ پیش کر رہے ہیں یہ صاحب خود متنازعہ بزرگ ہیں۔ ان کے بہت سارے کام ان کا تفرد کہلاتے ہیں۔ 

9) ابن حزم کے قول اور مذکورہ دعویٰ کا باطل ہونا باوجود معروف و مشہور ہے۔ لہٰذا یہ قول درست نہیں۔ 

 درست صورتحال یہ ہے کہ ان باغیوں نے حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو قتل کیا جو ابن سباء کے تربیت یافتہ اور دونوں قافلوں میں خفیہ طور پر چھپے ہوئے مسلمانوں کی جمعیت تباہ کرنے کے در پے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو کچھ سفر کر چُکنے کے بعد حضرت امیر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے بغاوت کر کے خارجی کے نام سے منسوب ہوئے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک یہ دعویٰ خلافِ حقیقت اور غیر ثابت شدہ ہے۔ ہماری طرف سے اس کا جواب یہی ہے کہ یہ محض ابن حزم کا ذاتی خیال اور تفرد ہے جو ہمارے لیے حجت نہیں۔ 

2_ مزید وضاحت کی غرض سے عرض کیا جاتا ہے کہ...

(الف) حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ عمار کو میرے صحابیؓ قتل نہ کریں گے بلکہ ان کو باغی ٹولہ قتل کرے گا۔ (بخاری و مسلم) 

(ب) "شریکِ بیعتِ رضوان میں کوئی شخص نہ باغی ہو سکتا ہے اور نہ ہی قاتل۔" اس لیے کہ شرکائے بیعت کے لیے حکم ربانی اپنی رضاء کے عطاء کرنے کا ہے اور اللّٰه تعالٰی جِس سے راضی ہو جائے اس سے دوبارہ ناراض نہیں ہوتا خود اللّٰه پاک کا ارشاد ہے: 

*لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ* ۔ (سورة یونس آیت 64)

اللّٰه کے کلمات تبدیل نہیں ہو سکتے نیز یہ کہ اللّٰه تعالٰی اپنے وعدوں کے خلاف نہیں فرماتا۔ (القرآن) 

پھر ان شرکائے بیعت کی بابت لسانِ نبوت سے ایسی احادیث منقول ہو چُکی ہیں جِن کی موجودگی میں ابن حزم کا مذکورہ قول حرفِ غلط کی طرح مِٹتا نظر آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابن حزم کا قول قرآن و سنت متواترہ کے صراحتاً خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

(ج) اربابِ علم کا فرمان ہے کہ حضرت عمار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے قاتل یمنی مجوسی ہیں جو ابن سباء پارٹی کے سرگرم لوگ تھے چنانچہ امام اہل السنّت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تقریر بخاری میں اس حوالہ سے فاضلانہ بحث کی گئی ہے وہاں رجوع فرما لیا جائے۔