Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ دونوں مفسد اور فتنہ پرور تھے۔ (فیض الباری تاریخ الخلفاء، مؤمن کے ماہ و سال امامت عظمٰی)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

 عمرو بن العاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ دونوں مفسد اور فتنہ پرور تھے۔ 

(فیض الباری تاریخ الخلفاء، مؤمن کے ماہ و سال امامت عظمٰی)

الجواب اہلسنّت

ان تمام کتابوں میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے جس میں ہے کہ لوگوں کے اندر دو شخصوں نے فساد برپا کیا۔ ایک اُن میں حضرت عمرو بن العاصؓ ہیں اور دوسرے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ۔ اس قول کی نسبت حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف محض جھوٹ ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا صحیح قول یہ ہے جو علامہ قرطبی رحمۃ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم کے آپس میں اختلاف و قتال کیسے واقع ہوئے؟ اور ان کا کیا حکم ہے؟ ہمیں مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے تو حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ:

1_نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم ان معاملات میں موجود اور حاضر تھے۔ اور ہم موجود نہ تھے بلکہ غائب تھے۔

2_(شرکائے واقعہ) صحابہ کرام رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم ان امور کو ہم سے بہتر جانتے تھے۔ ہم نہیں جانتے (کہ یہ واقعات کس طرح پیش آئے۔)

3_صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین جن امور پر مجتمع اور متحد و متفق ہوئے ان میں ہم ان کی اتباع کرتے ہیں۔ 

4_ جن چیزوں میں ان کا اختلاف اور تنازعہ ہوا ہم اس چیز میں توقف اختیار کرتے ہیں۔

(الجامع الاحکام القران للقرطبی جلد 16 صفحہ 322 تحت و ان طائفتان من المؤمنین سورۃ حجرات بحوالہ فوائد نافع جلد 1 صفحہ 276)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے بارے میں نظریہ توقع فرمانے کا ہے نہ کہ انہیں مفسد کہنے کا۔ لہٰذا اِس صحیح قول کی موجودگی یہ فراڈ پوری طرح آشکارا ہے کہ وہ قول جو تاریخ الخلفاء سے پیدا ہو کر بہت ساری جدید کتابوں میں پیوند ہو چکا ہے وہ ہوائی باتیں اور پھوکے فیر ہیں۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ تابعین میں سے ہیں جِن کی رائے صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی ذات کو مجروح نہیں کر سکتی اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے مقابلے میں ان کی بات کو کوئی وزن حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کی موضوع روایات کے سہارے رافضی شیعہ دجل کا دیا روشن ہے جو ان کے لیے کوئی قابلِ قدر بات نہیں۔