Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے مصداق سیدنا صدیقِ اکبرؓ

معزز قارئین کرام!
شیعہ حضرات جہاں بغضِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت سارے حقائق کو جھٹلاتے وہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے مصداق نہیں ہیں بلکہ اس کے مصداق عبداللہ بن اریقط ہیں۔
قارئین کرام! میں یہاں کوشش کروں گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زبانی یہ بات واضح کر سکوں کہ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے مصداق سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہی ہیں۔ ان شاء اللہ۔ 
سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو اللہ نے اپنے کلامِ مجید میں ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ سے ذکر فرمایا ہے اور یہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے لئے خصوصی فضیلت اور لقب ہے مفسرین نے یہاں ثانی کے لفظ سے جناب نبی کریمﷺ کی ذات بابرکات مراد لیتے ہیں یہ اس کلمہ کا ایک مفہوم ہے لیکن ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کا لفظ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے لئے استعمال کیا گیا ہے یعنی دو شخصوں میں سے دوسرے شخص سمیت کافروں نے نکال دیا۔ اس صورت میں ثانی سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ مراد لینا درست ہے ذیل میں ایسے قرائن پیش کیے جاتے ہیں کہ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے کلام اور تکلم میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔ 
اس کی چند ایک مثالیں: ان مقامات سے ظاہر اور ثابت ہو گا کہ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کا لقب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے حق میں صحیح تصور فرماتے تھے۔
سیدنا عمرؓ کا کلام:
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ بیعت کرنے کے موقعہ پر ایک کلام کیا تھا اس میں آں موصوف نے آپؓ کے صفات شمار کئے:
ان ابابکرؓ صاحب رسول اللہﷺ‎ و ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ و انہ اولی المسلمین بامورکم فقوموا فبایعو الخ۔
درج ذیل مقامات پر محدثین اور اہلِ سیرت نے سیدنا عمرؓ کے خطبہ کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو:
(مصنف عبدالرزاق: صفحہ، 438، 437 باب بداء مرض رسول اللہﷺ)
(بخاری شریف: صفحہ، 1702 جلد، 2 کتاب الاحکام باب الاستخلاف طبع نور محمد)
(المصنف لابنِ شیبہ صفحہ، 566 جلد، 14 باب ماجاء فی خلافۃ ابی بکرؓ)
(سیرتِ ابنِ ہشام: صفحہ، 661، 600 جلد، 2 تحت خطبہ عمرؓ قبل ابی بکرؓ عند البیعت عامہ)
سیدنا ابو عبیدہؓ کا قول:
سیدنا عمرؓ نے آنجنابﷺ‎ کے وصال پاک کے بعد بیعت کے معاملہ میں سیدنا ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو بیعتِ خلافت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو سیدنا ابوعبیدہؓ نے فرمایا: 
اتبا یعنی وفیکم الصدیقؓ و ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ۔
ترجمہ: یعنی تم میرے ساتھ بیعت کرنا چاہتے ہو حالانکہ تم میں الصدیقؓ اور ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ موجود ہیں۔
(طبقات ابنِ سعد صفحہ، 128 جلد، 3 کنزالعمال لعلی متوی الہندی صفحہ، 140 جلد، 3 طبع اول دکن)
سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ کا قول:
تاریخ ابنِ جریر الطبری صفحہ، 209 جلد، 3 میں طبری نے نقل کیا ہے کہ جس وقت مہاجرین اور انصار میں خلافت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تھی اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس معاملہ میں معذرت چاہی تو اس وقت سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابوعبیدہؓ دونوں نے فرمایا: اللہ کی قسم اس معاملے کا آپؓ کو چھوڑ کر ہم کسی دوسرے کو والی نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ آپؓ افضل المہاجرین ہیں اور ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ہیں جب کہ دونوں حضرات غار میں تھے اور نماز پر بھی آپؓ رسول اللہﷺ‎ کے خلیفہ اور قائم مقام ہیں حالانکہ نماز مسلمانوں کے دین میں افضل چیز ہے پس کس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپؓ سے مقدم ہو سکے؟ یعنی آپؓ سے مقدم ہونا کسی کے لائق نہیں۔
سیدنا عثمان بن عفانؓ کا قول:
کنزالعُمال میں بحوالہ خیثمہ بن سلیمان روایت ہے کہ:
عن حمران قال عثمان ابنِ عفانؓ ان ابابکر الصدیقؓ احق النا س بہا یعنی الخلافۃ انہ صدیقؓ و ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ وصاحب رسول اللہﷺ۔‎ 
ترجمہ: یعنی سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ تحقیق سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلافت کے معاملہ میں زیادہ حقدار ہیں۔ وہ صدیق ہیں ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ہیں اور وہ صاحبِ رسول اللہﷺ‎ ہیں۔
(کنزالعمال لعلی متقی الہندی: صفحہ، 140 بحوالہ خیثمہ فی فضائل الصحابہ روایت نمبر: 2331 کتاب الخلافۃ طبع اول دکن)
سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیر بن عوامؓ کا قول:
جب خلافت و نیابت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا:
انا نری ان ابا بکرؓ احق الناس بہا انہ لصاحب الغار و ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ۔
ترجمہ: یعنی سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیر بن عوامؓ مسئلہ خلافت کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا زیادہ حقدار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو جانتے ہیں کیوں کہ وہ صاحبِ غار اور ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ہیں
(السنن الکبریٰ للبیہقی: صفحہ، 18 الاعتقاد علی مذہب السلف للبیہقی: صفحہ، 179 طبع مصر)
سیدنا ربیعہ بن کعبؓ کا قول:
مسند امام احمد میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک بار سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ایک نخلہ کھجور کے متعلق وقتی طور پر تنازع پیش آیا تھا۔ سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ کے قبیلے کے لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے متعلق کچھ شکوہ کرنے لگے تو سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ نے ان کو فہمائش کرتے ہوئے کہا:
اتدرون ماھذا؟ ھذا ابوبکر الصدیقؓ ھذا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ھذا ذو شیبہ المسلمین الخ۔
یعنی سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ نے کہا کیا تم جانتے کہ ان کا کیا مقام ہے؟
یہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ یہ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ ہیں۔ یہ مسلمانوں کے شیخ اور بزرگ ہیں الخ۔
(مسند امام احمد: صفحہ، 58، 59 جلد، رابع تحت مسندات ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ)
سیدنا حسان بن ثابتؓ کے اشعار:
روایات کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرمﷺ‎ نے سیدنا حسان بن ثابتؓ کو فرمایا: کہ تو نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں تو کہو تا کہ ہم بھی سن لیں تو سیدنا حسانؓ کہنے لگے
وثَانِىَ اثۡنَيۡنِ فی الغار ا لمنیف
وقد طاف العدو بہ اذ صعد الجبلاء
وکان حب رسول اللہﷺ قد علموا
من البریہ لم یعدل بہ زجلا۔
(دیوانِ حسانؓ: صفحہ، 240 طبع مصر ازالہ لشاہ ولی اللہ: صفحہ، 99 جلد، اول تحت مسند حسان بن ثابتؓ)
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ بلند غار میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ دو شخصوں میں سے دوسرے تھے اور جب یہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے اس غار کا چکر لگایا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ رسول اللہﷺ کے محبوب ہیں اور لوگوں نے یقین کر لیا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے کسی کو ان کے برابر نہیں قرار دیا۔ 
مختصر یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی گفتگو اور کلام میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے لقب سے ذکر کرتے تھے یعنی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نبی اقدسﷺ کے بعد ثانی درجہ میں ہیں اور کلمہ ثانی میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی مراد ہیں۔
قاعدہ: قاعدہ ہے کہ باب تفسیر میں اقوال‌ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجت قرار دئیے جاتے ہیں۔ فلہٰذا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ کے مفہوم کی وضاحت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مندرجہ بالا اقوال حجتِ شرعی کے درجہ میں ہیں اس لئیے یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مقام ثانی سے مراد سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی ہیں اور یہ ان کا لقب درست ہے اور یہ اُن کی صفت صحیح ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس چیز کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں خلافتِ صدیق کی طرف اشارہ پاتے تھے۔
شیعہ علماء کی طرف سے تائید:
شیعہ علماء میں ابنِ ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ طبع قدیم میں بحث ہذا میں سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابوعبیدہؓ کا قول نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:
فقال عمرؓ و ابو عبیدہؓ ما ینبغی لاحد من الناس ان یکون فوقک انت صاحب الغار ثَانِیَ اثْنَيْنِ وامرک رسول اللہﷺ با الصلوۃ فانت احق النساء بھذا الامر۔
ترجمہ: یعنی سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابوعبیدہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت کوئی شخص آپؓ پر فائق نہیں ہے آپؓ صاحبِ غار ہیں اور ثَانِیَ اثْنَيْنِ ہیں اور خدا کے رسولﷺ نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا پس آپؓ خلافت کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں۔
سیدنا ابو بكرؓ ثَانِیَ اثْنَيْنِ من كتب الشيعةيقول الله عزوجل:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ ۚفَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى‌ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
(سورۃ التوبة: آیت، 40)
صاحب أبی بكرؓ النَّبِیﷺ فج هجرته، و كانت من أعظم فضائل و مناقب أبی بكرؓ فثبت لأبی بكرؓ منزلة عظيمة لم يبلغها أحد من الصحابة رضوان الله عنهم۔
بما أن دين الإثنى عشرية قائم على بغض الصحابة رضوان الله عنهم، فإن بعضهم ينكر أن يكون أبی بكرؓ هو صاحب النَّبِیﷺ فی الغار۔
هذه أدلة من كتبهم تثبت أن أبی بكرؓ هو صاحب النَّبِیﷺ فی الغار۔
(1: كتاب بصائر الدرجات للصفار (290ھ) صفحہ، 442)
احمد بن محمد ومحمد بن الحسين عن الحسن بن محبوب عن على بن رئاب عن زياد الكناسى عن أبى جعفرؓ قال لما كان رسول اللہﷺ فی الغار و معه أبو الفصيل قال رسول اللہﷺ أنى لأنظر الآن إلى جعفرؓ وأصحابه الساعة تغوم بينهم سفينتهم فی البحر وأنى لأنظر إلى رهط من الأنصار فی مجالسهم مخبتين بافنيتهم فقال له أبو الفضل أتريهم يا رسول اللہﷺ الساعة قال نعم فارينهم قال فمسح رسول اللہﷺ على عينيه ثم قال انظر فنظر فرآهم فقال رسول اللہﷺ أرايتهم قال نعم واسر فی نفسه انه ساحر۔
(2: تفسير القمی (329ھ) الجزء، 1 صفحہ، 290)
قوله: اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ فإنه حدثنی أبی عن بعض رجاله رفعه إلى أبی عبد اللهؓ قال لما كان رسول اللہﷺ فی الغار قال لفلان كأنی أنظر إلى سفينة جعفرؓ فی أصحابه يقوم فی البحر وأنظر إلى الأنصار محتسبين فی أفنيتهم فقال فلان وتراهم يا رسول اللہﷺ قال نعم قال فأرنيهم فمسح على عينيه فرآهم فقال فی نفسه الآن صدقت أنك ساحر فقال له رسول اللہﷺ أنت الصديق۔
(3: كتاب الكافی للكلينی (329ھ) الجزء، 8 صفحہ، 262)
حميد بن زياد عن محمد بن أيوب عن علی بن أسباط عن الحكم بن مسكين عن يوسف بن صهيب عن أبی عبد اللهؓ قال: سمعت أبا جعفرؓ يقول: إن رسول اللہﷺ أقبل يقول لأبی بكرؓ فی الغار: أسكن فإن الله معنا وقد أخذته الرعدة وهولا يسكن فلما رأى رسول اللہﷺ حاله قال له: تريد أن أريك أصحابی من الأنصار فی مجالسهم يتحدثون فأريك جعفرؓ وأصحابه فی البحر يغوصون؟ قال: نعم فمسح رسول اللہﷺ: بيده على وجهه فنظر إلى الأنصار يتحدثون ونظر إلى جعفرؓ وأصحابه فی البحر يغوصون فأضمر تلك الساعة أنه ساحر۔
(4: التبيان للطوسی (460ھ) الجزء، 5 صفحہ، 221)
قرأ يعقوب وحده وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا بالنصب على تقدير وجعل كَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا ومن رفع استأنف، وهو أبلغ لأنه يفيد أن كَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا على كل حال وهذا أيضاً زجر آخر وتهديد لمن خاطبه فی الآية الأولى بأنهم إن لم ينصروا النَّبِیﷺ ولم يقاتلوا معه ولم يجاهدوا عدوه فقد نصره الله أی قد فعل الله به النصر حين أخرجه الكفار من مكة ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ وهو نصب على الحال أی هو ومعه آخر، وهو ابو بکرؓ فی وقت كونهما فی الغار من حيث قَالُ لِصَاحِبِهٖ يعنی أبا بکرؓ لَا تَحۡزَنۡ أی لا تخف ولا تجزع اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ أی ينصرنا. والنصرة على ضربين احدهما يكون نعمة على من ينصره و الآخر لا يكون كذلك، فنصرة المؤمنين تكون إحساناً من الناصر إلى نفسه لأن ذلك طاعة لله ولم تكن نعمة على النَّبِیﷺ والثانی من ينصر غيره لينفعه بما تدعوا إليه الحكمة كان ذلك نعمة عليه مثل نصرة الله لنبيهﷺ۔
(5: الإفصاح للمفيد (413ھ) صفحہ 185)
جواب: قيل لهم: أما خروج أبی بکرؓ مع النَّبِیﷺ فغير مدفوع وكونه فی الغار معه غير مجحود واستحقاق اسم الصحبة معروف۔
(6: تفسير مجمع البيان للطبرسی (توفی 548ھ) الجزء، 5 صفحہ، 57)
المعنىٰ: ثم أعلمهم الله سبحانه أنهم إن تركوا نصرة رسوله لم يضرُّه ذلك شيئاً كما لم يضره قلة ناصريه حين كان بمكة وهمَّ به الكفار فتولّى الله نصره فقال اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ معناه إن لم تنصروا النَّبِیﷺ على قتال العدوّ فقد فعل الله به النصر اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا من مكة فخرج يريد المدينة ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ يعنی أنه كان هو وأبو بکرؓ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ ليس معهما ثالث أی وهو أحد اثنين ومعناه فقد نصره الله منفرداً من كل شيء إلا من أبی بکرؓ والغار الثقب العظيم فی الجبل وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكة۔اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ أی إذ يقول الرسول لأبی بکرؓ لَا تَحۡزَنۡ أی لا تخف اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ يريد أنه مطّلع علينا عالم بحالنا فهو يحفظنا وينصرنا۔
(7: مختصر بصائر الدرجات لحسن بن سليمان الحلی (ق 9) صفحہ، 29)
موسیٰ بن عمر بن يزيد الصيقل عن عثمان بن عيسیٰ عن خالد بن يحييٰ قال قلت لأبی عبد اللهؓ سمى رسول اللہﷺ أبا بکرؓ صديقاً فقال نعم انه حيث كان معه أبو بکرؓ فی الغار۔
(8: التفسير الصافی للفيض الكاشانی (1091ھ) الجزء، 2 صفحہ، 344)
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إن تركتم نصرته فسينصره الله كما نصره إذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِىَ اثْنَيْنِ لم يكن معه إلاّ رجل واحد إذْ هُمَا فِی الغَارِ غار ثور وهو جبل فک يمنى مكة على مسيرة ساعة إذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ وهو أبو بکرؓ لاَ تَحْزَنْ لا تخف إنَّ اللهَ مَعَنَا بالعصمة والمعونة۔
(9: بحار الأنوار للمجلسی (1111ھ) جلد، 19 صفحہ، 33 باب 6: الهجرة ومباديها ومبيت علیؓ على فراش النَّبِیﷺ)
وقال فی قوله تعالىٰ: اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ أی إن لم تنصروا النَّبِیﷺ على قتال العدو فقد فعل الله به النصر اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا من مكة فخرج يريد المدينة ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ يعنی أنه كان هو وأبو بکرؓ فی الغار ليس معهما ثالث وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكةاِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ أی إذ يقول الرسول اللہﷺ لأبی بکرؓ: لَا تَحۡزَنۡ أی لا تخف اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ يريد أنه مطلع علينا عالم بحالنا فهو يحفظنا وينصرنا۔
(10: بحار الأنوار للمجلسی (1111ھ) جلد، 19 صفحہ، 71 باب، 6: الهجرة ومباديها ومبيت علیؓ على فراش النَّبِیﷺ)
 بصائر الدرجات: ابنِ عيسىٰ وابن أبی الخطابؓ معا عن ابن محبوب عن ابن رئاب عن الكناسی عن أبی جعفرؓ قال: لما كان رسول اللہﷺ فی الغار ومعه أبو الفضيلؓ قال رسول اللہﷺ إنی لأنظر الآن إلى جعفرؓ وأصحابه الساعة تعوم بهم سفينتهم فی البحر إنی لأنظر إلى رهط من الأنصار فی مجالسهم محتبين بأفنيتهم فقال له أبو الفصيلؓ: أتراهم يا رسول اللہﷺ الساعة؟ قال: نعم قال: فأرنيهم قال: فمسح رسول اللہﷺ على عينيه ثم قال: انظر فنظر فرآهم فقال رسول اللہﷺ أرأيتهم؟ قال: نعم وأسر فی نفسه أنه ساحر۔بيان: أبو الفصيل: أبو بکرؓ وكان يكنى به فی زمانه أيضا لان الفصيل ولد الناقة والبكر: الفتى من الإبل والعوم: السباحة وسير السفينة۔
(11: بحار الأنوار للمجلسی (1111ھ) جلد، 19 صفحہ، 88 باب 6: الهجرة ومباديها ومبيت علیؓ على فراش النَّبِیﷺ)
الكافی: حميد بن زياد عن محمد بن أيوب عن علی بن أسباط عن الحكم بن مسكين عن يوسف بن صهيب عن أبی عبد اللهؓ قال: سمعت أبا جعفرؓ يقول إن رسول اللہﷺ أقبل يقول لأبی بکرؓ فی الغار: أسكن فإن الله معنا وقد أخذته الرعدة وهو لا يسكن فلما رأى رسول اللہﷺ حاله قال له: تريد أن أريك أصحابی من الأنصار فی مجالسهم يتحدثون وأريك جعفراؓ وأصحابه فی البحر يغوصون؟ قال: نعم فمسح رسول اللہﷺ بيده على وجهه فنظر إلى الأنصار يتحدثون ونظر إلى جعفرؓ وأصحابه فی البحر يغوصون فأضمر تلك الساعة أنه ساحر۔
(12: تفسير الميزان للطباطبائی (1412ھ) الجزء، 9 صفحہ، 279)
قوله تعالىٰ: اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ ثانی اثنين أی أحدهما، والغار الثقبة العظيمة فی الجبل، والمراد به غار جبل ثور قرب منى وهو غير غار حراء الذی ربما كان النَّبِیﷺ يأوی إليه قبل البعثة للأخبار المستفيضة، والمراد بصاحبه هو أبو بکرؓ للنقل القطعی۔
(13: تفسير بيان السعادة في مقامات العبادة/ الجنابذي (14ھ)
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ للَّهُ تذكيرٌ لهم بنصرته له ﷺ حين لم يكن له معاون حتیٰ يتحقّق عندهم نصرته بدونهم استمالةً لقلوبهم إِذْ أَخْرَجَهُ لَّذِينَ كَفَرُواْ حين شاوروا فی أمره بالإجلاء والحبس والقتل فی دار النّدوة كما سبق ثَانِيَ اثْنَيْنِ يعنى لم يكن معه إلا رجلٌ واحدٌ وهو أبو بکرؓ إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ غار ثورٍ وهو جبل فی يمنى مكّة على مسيرة ساعةٍ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ والإتيان بالمضارع للإشارة إلى انّه كرّر هذا القول لعدم سكونه عن اضطرابه إِنَّ للَّهَ مَعَنَا ومن كان معه لا يغلب فلا تحزن من اطّلاع الأعداء وغلبتهم۔