امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تینوں لعنتی ہیں۔ (تنویر الایمان)
مولانا ابوالحسن ہزارویامیر معاویہؓ، مغیرہ بن شعبہؓ اور عمرو بن العاصؓ تینوں لعنتی ہیں۔ (تنویر الایمان)
الجواب اہلسنّت
یہ روایت بھی سبائی جنگل کی کاشت ہے، اس کے جھوٹا ہونے کے لیے درج ذیل قرینہ کافی ہیں۔
1_عمرو بن العاص رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے منبر پر چڑھ کر جناب امیر پر کُچھ اعتراض کیا (عکسی صفحہ) روایت میں کوئی وضاحت نہیں کہ وہ منبر کون سا تھا اور یہ کہ حضرت عمرو رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے کس حیثیت سے یہ بیان کیا تھا جبکہ منبرِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر خطبہ دینا امیر کے ذمہ ہے ! یہ الفاظ بالکل مجہول ہیں مزید یہ کہ بڑے حوصلہ کے بات ہے کہ ممبرِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے ہو کر کسی پر اعتراض کرنے کا بہتان صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین پر باندھا جائے۔
2_(حضرت حسنؓ نے فرمایا) اے عمرو اے مغیرہ میں تمہیں خُدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے سابق اور قائد پر لعنت کی ہے جن میں ایک وہ فلاں شخص بھی ہے (عکسی صفحہ) اِس جملہ میں قابل غور ہے کہ
(1) فلاں شخص بھی ہے: اگر وہ واقعی ملعون ہے تو چھپانے کی کیا ضرورت اور اگر ملعون نہیں تو یہ لعنت والے الفاظ کا کیا معنی؟ یہ لفظ صاف صاف شکایت لگا رہا ہے کہ شیعہ مہربانوں کی گھڑی ہوئی کہانی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو شیعہ اصول اربعہ کے صفحات کھول کر دیکھ لیے جائیں جہاں الفاظ ہوتے ہیں "*أللّٰھم العن فلاں و فلاں و فلاں*"۔ کہ فلاں فلاں پر لعنت کر۔ معلوم ہوا کہ فلاں کا استعمال عموماً شیعہ برادری کا زیر استعمال لفظ ہے جو دراصل تقیہ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صاف قرینے کے بعد رافضی شیعہ کرم فرماؤں کا اِس روایت کو مسلمہ روایت کے طور پر پیش کرنا اور الزام دینا محض فراڈ ہے۔
3_ اس جملہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سابق و عقائد پر (جِس کا مطلب اگلے اور پچھلے بنتا ہے) لعنت کرنا کتاب اللّٰه کے خلاف ہے۔ اول لعنت کرنا درست نہیں پھر ان پر جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اُن پر جبکہ اس وقت تک ان کا کوئی قصور نہیں تھا لعنت کرنا کیسے درست ہے ؟ یہ بات بھی اس روایت کا جھوٹا ہونا واضح کر رہی ہے۔
4_ (حضرت حسنؓ نے فرمایا)۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ پر تمامی ان جملوں کے ساتھ جِن کے ساتھ لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں لعنت فرمائی۔ (عکسی صفحہ)
کیا کرم فرما اس لعنت کا نبوی ارشاد کہیں سے دِکھا سکتے ہیں کہ مذکورہ وصف کے مطابق آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر لعنت فرمائی ہو؟؟ حقیقت یہ ہے کہ ذخیرہ روایات میں کہیں پر ایسا کوئی جملہ موجود نہیں کہ جِس میں رحمتِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ پر لعنت فرمائی ہو۔ نیز اس جملہ سے کیا تاثر ملتا ہے ؟؟ یہی ناں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم لعنت کی تسبیح پڑھتے رہتے تھے۔ لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ ۔
کیا ایسی روایت بھی قابلِ اعتماد اور بالکل صحیح ہو گی ؟ ہاں ان کے نزدیک تو درست ہو سکتی ہے جو بھنگ کا پیالا چڑھا کر کربلا سے آواز آئی ہے پر مست ہو رہے ہوں اور اسی حالتِ نشہ میں روایت پڑھنے کا شرف حاصل کر رہے ہوں مگر کوئی ذی عقل شخص تو ان الفاظ پر غور کرنے کے بعد صاف کہہ دیتا ہے کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہے سہی نہیں۔
5_خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جِس نے تُم کو اس جماعت میں کیا جو حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے بے زاری ظاہر کرنے والی ہے۔ (عکسی صفحہ)
،حالانکہ یہ بات بہرحال خلافِ واقعہ ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ وغیرہ حضرات نے حضرت امیر المؤمنین حیدر کرار رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے بے زاری کا اظہار کیا ہو بلکہ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کا آپس میں گہرا ربط رہا اور ایک دوسرے کے لیے دُعائیہ جملوں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ خلافِ حقیقت جملہ اس روایت کے خلافِ حقیقت اور جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔
6_ اِس روایت کی سند تو بیان نہیں کی گئی البتہ یہ کہہ دیا گیا کہ ایک راوی کے سوا باقی سب راوی صحیح احادیث کے راوی ہیں اگرچہ وہ بھی مختلف فیہ ہے۔ (عکسی صفحہ)
یہ جُملہ رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک راوی کے بارے میں تو کھلے لفظوں میں اعتراف کر لیا نہ کہ وہ راوی صحیح نہیں اور جھوٹی روایت گھڑنے والا تو ایک ہی ہوتا ہے باقی تو صرف ناقل ہوتے ہیں گویا اسی ایک صاحب نے یہ روایت گڑھ کر پیش کی اور باقی راویوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اِس جھوٹی اور وضعی روایت کی بنا پر الزام دیا جارہا ہے۔ باقی رہا اہلِ السنّت والجماعت کی کتابوں میں ان کا لکھا جانا تو یہ بات ہر شخص جانتا ہے جِس کو علم اور اہلِ علم سے کُچھ وابستگی ہو، جِس کتاب میں یہ روایت ہے اسی میں اس کتاب کا وضعی اور بالکل مردود ہونا بھی لکھا ہوا ہے۔ کِسی روایت کو لِکھ کر ساتھ یہ بتا دینا کہ متکلم فیہ راویوں سے یہ روایت آئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ عقیدہ بنانے کے لیے کافی دلیل ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ روایت بازار علم میں ایسی ردی ہے جِس کاٹھکانہ ردی کی ٹوکری کے سوا کوئی نہیں ہے۔