Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تین صحابہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے قول کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے تھے نعوذباللہ (میزان شعرانی)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تین صحابہ انس بن مالک رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ، ابو ہریرہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے قول کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے تھے نعوذباللّٰہ۔ (میزان شعرانی)

 الجواب اہلسنّت

1_اول روایت کی سند یہاں مکمل نہیں ہے بلکہ حوالہ ہے کہ صاحبِ کتاب نے یہ قول کہاں سے اخذ کیا ہے تاکہ وہاں سے اصل قول کو دیکھا جائے کہ عام طور پر بات کچھ ہوتی ہے اور آگے چل کر کچھ بنا دی جاتی ہے۔

2_سوائے کا لفظ ناقل یا کاتب کا تصرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ سوال میں اپنی رائے ترک کرنے اور صحابہ (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم) کے ارشاد کو اختیار کرنے کا وضاحت کے ساتھ اظہار ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہر صحابی (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ) کے مقابلے میں اپنی رائے کو چھوڑنے کا اظہار فرما رہے تھے۔ لہٰذا ان تین صحابہ (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم) کے نام آنے پر بھی امام اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی رائے سے دستبرداری کا اعلان کیا ہو گا۔

3_ ان حضرات ثلاثہ کا ارشاد نہ ماننے کی کوئی وجہ و علت یہاں لکھی ہوئی موجود نہیں، یہ کہنا کہ سوائے انس بن مالک رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور سمرہ بن جندب رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے تمام صحابہ کے بالمقابل اپنی رائے کو ترک کردوں گا۔ اور وجہ بیان نہ کرنا اس روایت کو ناقابلِ اعتماد بنا رہا ہے۔

4_اس مذکورہ روایت سے ساتھ اوپر کی روایت میں اس پہ استثناء نہیں ہے، کہ جو کچھ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین سے (ہمیں) پہنچے اس میں سے ہم پسند کرلیں گے (عکسی صفحہ) جس کا مطلب ہے کہ مختلف صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے اقوال میں سے جس کو چاہے ہم اختیار کریں گے اور اس کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترک کر دیں گے۔ اس روایت میں صاف صاف وضاحت اور جامع اصول منقول ہے جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری جماعت صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے ارشادات پر صادق آتا ہے۔ اس میں کوئی استثناء نہیں کہ فلاں فلاں صحابی کا ارشاد حجت ہے اور فلاں کا حجت نہیں ہے۔

5_ اس عکسی صفحہ کے آخر کی دونوں روایات میں جب تعارض ہو گیا کہ ایک میں استثناء ہے اور ایک میں نہیں تو وہ روایت راجح ہوگی جو واضح اور اشتباہ سے پاک ہو لہٰذا آخری سے اوپر والی روایت ثابت اور راجح ہے کہ اس میں جو اصول بیان کیا گیا ہے اس میں کوئی ترمیم و تخصیص کا پہلو موجود نہیں جبکہ دوسری روایت میں بلا دلیل استثناء ہے۔

6_ ابو مطیع بلخی کا قول اس وجہ سے بھی مردود معلوم ہوتا ہے کہ اس قول کے برعکس امام اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بہت سارے شرعی مسائل میں اِن تینوں حضرات کی روایات و ارشادات سےاستدلال کیا ہے اور یہ مسلمہ اصول ارباب تحقیق سے مخفی نہیں کہ جب صاحب قول کا عمل اس قول کے خلاف ہو تو وہ قول قابلِ اعتبار نہیں ہوتا۔ 

مذکورہ وجوہ کی بنا پر ابو مطیع بلخی کا قول تصرف سے خالی نظر نہیں آتا ہے بالخصوص اس وقت جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی زیارت سے امام اعظم رحمۃ اللہ کو شرفِ تابعیت نصیب ہوا ہے۔ جِس صحابی (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ) کی زیارت سے وہ تابعی بنے بھلا اُن کا ارشاد امام اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نزدیک حجت کیوں نہیں ہو گا...؟؟